پشاور جلسہ: ’سرکاری مشینری کے استعمال‘ پر عمران سے وضاحت طلب

ای سی پی خیبر پختونخوا نے چھ ستمبر کو پشاور جلسے میں عوامی عہدیداروں کی شرکت اور ’سرکاری مشینری کے استعمال‘ پر عمران خان سے ذاتی طور پر یا وکیل کے ذریعے نو ستمبر کو وضاحت طلب کی ہے۔

سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان چھ ستمبر 2022 کو پشاور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی فیس بک)

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے خیبر پختونخوا دفتر نے پشاور میں چھ ستمبر کو ہونے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے میں ’سرکاری وسائل کے استعمال‘ اور ’وزیراعلیٰ سمیت عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کی شرکت پر‘ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے وضاحت طلب کر لی ہے۔

ای سی پی کے صوبائی دفتر کی جانب سے بدھ کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر پشاور شہاب الدین نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو نوٹس جاری کر کے نو ستمبر کو صبح خود یا بذریعہ وکیل وضاحت پیش کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر پشاور نے پی ٹی آئی جلسے میں شرکت کرنے پر وزیراعلیٰ محمود خان، وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیر ماحولیات اشتیاق ارمڑ، وزیر محنت شوکت علی یوسفزئی، وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران خان بنگش، وزیر زکوٰة انور زیب خان، وزیر ریلیف محمد اقبال، وزیراعلیٰ کے مشیر خلیق الرحمن اور معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ وزیر زادہ کو بھی خود یا بذریعہ وکیل وضاحت پیش کرنے کے لیے نو ستمبر صبح 10 بجے اپنے دفتر طلب کیا ہے۔

ترجمان ای سی پی پشاور سہیل احمد کے مطابق 25 ستمبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق کی رو سے عوامی عہدوں پر فائز شخصیات ایسے جلسوں میں شرکت اور سرکاری وسائل کا استعمال نہیں کرسکتیں۔

ان کا کہنا تھا خلاف ورزی کی صورت میں دیگر الیکشن قوانین کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

حکومت کا موقف

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے صوبائی وزیر کامران بنگش سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہیں الیکشن کمیشن کا خط موصول نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو جواب دے گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے یا ان کی حکومت نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا ہے جو قانون کے خلاف ہو۔

پی ڈی اے کے سربراہ طلب

اس سے قبل بدھ کو ہی چھ ستمبر کے پی ٹی آئی جلسے میں ’سرکاری مشینری اور ریاستی وسائل استعمال کرنے‘ پر پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) نے تین اہلکاروں کو معطل کیا تھا اور انکوائری کا حکم دیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے صوبائی دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈی جی پی ڈی اے کو بدھ کو ای سی پی کے دفتر طلب کیا گیا، جہاں انہوں نے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر پشاور کے دفتر میں پیش ہو کر وضاحت کی کہ جلسے میں ان کے دفتر کی گاڑی کے استعمال کا ان کو علم نہیں تھا۔

انہوں نے ای سی پی کے افسر کو بتایا کہ جیسے ہی ان کو سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر تین اہلکاروں کو  معطل کردیا اور انکوائری کا حکم دے کر دو ہفتوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

بیان کے مطابق ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر نے ڈی جی کو ہدایت کی کہ انکوائری رپورٹ 12 ستمبر تک پیش کریں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے اور ان کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔

سوشل میڈیا پر پی ڈی اے اہلکاروں کی ویڈیو

ای سی پی کے صوبائی دفتر نے پشاور میں پی ٹی آئی کے جلسے سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے اسے 25 ستمبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، جس میں پی ڈی اے کے کچھ اہلکار بجلی کے کھمبوں پر پی ٹی آئی کے جھنڈے لگانے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔

پی ڈی اے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل فیاض علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اطلاع ملنے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ویڈیو میں نظر آنے والے تین اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کر کے انکوائری کا حکم دے دیا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ دراصل جلسہ رِنگ روڈ پر منعقد ہوا تھا، جو پی ڈی اے کی عملداری کا علاقہ ہے۔

انہوں نے کہا: ’کئی دنوں سے 40 کھمبوں کی لائٹوں میں بار بار مسئلہ آرہا تھا، جس کو ٹھیک کرنا پی ڈی اے کی ذمہ داری تھی۔ سرکاری مشنیری کا استعمال دراصل لائٹیں ٹھیک کرنے کے لیے ہوا۔

’جہاں تک کسی اہلکار کا جھنڈے لگانے کا سوال ہے، اس قسم کی ہدایات میری جانب سے نہیں کی گئی ہیں، اور نہ ہی مجھ سے اس بابت کچھ پوچھا گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ڈی اے کی مشینری اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے نکلتی رہتی ہے، تاہم اگر اس دوران کوئی اہلکار کسی خطا کا مرتکب ہوجائے تو اس کو پورے ادارے کا دانستہ عمل نہ قرار دیا جائے۔

دوسری جانب پی ڈی اے کے ایک  افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو کچھ تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پی ڈی اے میں ہر سیاسی جماعت سے وابستگی رکھنے والے افراد ہیں، جن میں سے ’کسی نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرارتاً یہ ویڈیو بنائی ہے تاکہ ادارے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو بدنام کیا جاسکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ہوا یوں کہ جس وقت ان کے اہلکار بجلی کے  کھمبوں پر بلب ٹھیک کرنے میں مصروف تھے، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ان سے درخواست کی کہ ان کے جھنڈے بھی پولز پر لگائیں۔

پی ڈی اے افسر کے مطابق ایک ملازم کی ’اتنی ہی سوچ تھی کہ ایک بھلائی ہے کر دیں گے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ ایک خلاف ورزی ہے اور اس فعل کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، تو وہ کبھی بھی ایسا نہ کرتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان