ضمنی انتخاب: ایک طرف ’حکومتی مشینری‘ اور دوسری طرف ’شہرت‘

صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ڈی سیٹ ہونے والے امیدواروں کے حلقوں میں ضمنی انتخاب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں 17 جولائی یعنی اتوار کو انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔

پنجاب میں ضمنی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز اور پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان مہم چلا رہے ہیں (تصاویر: فیس بک)

صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ڈی سیٹ ہونے والے امیدواروں کے حلقوں میں ضمنی انتخاب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں 17 جولائی یعنی اتوار کو انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔

اس انتخابی معرکے میں پاکستان تحریک انصاف کے 20 اراکین اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جبکہ کئی حلقوں میں ن لیگ کے سابق امیدوار پی ٹی آئی کی طرف سے میدان میں اتاریں گے۔

یہ انتخاب پارٹی وفاداریوں کی بجائے صرف کامیابی کے فارمولے پر ٹکٹوں کی تقسیم کی بنیاد پر دیکھنے میں آرہا ہے۔

ایک طرف حکمران اتحاد پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی کرسی بچانے تو دوسری جانب اپوزیشن کامیابی کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا بیانیہ کامیاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ن لیگ کی رہنما مریم نواز اور اپوزیشن کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان تمام حلقوں میں جلسے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلی بار ایسی صورتحال سامنے آئی ہے کہ ضمنی انتخاب کے نتائج پر صوبہ کی حکومت کاانحصار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں 20 امیدوار وہ ہیں جو پہلے کامیاب ہوئے تھے اور ان میں سے دس تو آزاد حیثیت میں جیتے تھے۔ اب انہیں ن لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، اس لیے پی ٹی آئی امیدواروں کو چیلنجز کا سامنا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پنجاب کے ان 20 حلقوں میں اترنے والے امیدواروں کی سیاسی وابستگیوں اور ماضی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ پوزیشن جانچنے کے لیے الیکشن کمیشن، پنجاب اسمبلی اور ضلعی انتظامیہ کے ریکارڈ کی مدد سےکوشش کی ہے۔

حاصل شدہ معلومات کے مطابق بعض حلقے ایسے بھی ہیں جہاں کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور ہار یا جیت میں بہت کم فرق کا امکان ہے۔

بھابھی، دیور میں کانٹے کا مقابلہ

پنجاب کے ضمنی انتخاب میں چار حلقے ایسے ہیں جہاں امیدواروں کے درمیان مقابلہ اتنا سخت دکھائی دے رہا ہے کہ کسی بھی امیدوار کا پلڑا بھاری ہونے کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی وابستگیوں اور ذات، برادری کی بنیاد پر جمع تفریق کرنا بھی دشوار ہے۔

ایک حلقہ تو ایسا ہے جہاں ایک ہی خاندان سے بھابھی اور دیور بطور امیدوار آمنے سامنے ہیں۔

سب سے سخت مقابلہ پی پی 272 مظفر گڑھ کی نشست پر دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں ضمنی انتخاب میں اس حلقےسے منحرف ایم این اے باسط سلطان بخاری کی اہلیہ زہرہ باسط سلطان بخاری مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

ان کے مدمقابل سابق ایم این اے محمد معظم علی جتوئی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ حلقےمیں تیسری اہم شخصیت امیدوار ہارون سلطان بخاری، ایم این اے باسط بخاری کے بھائی اور مسلم لیگ ن کی ٹکٹ ہولڈر زہرہ باسط بخاری کے دیور بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے معظم خان جتوئی کے خاندان سے نذر جتوئی، نصراللہ جتوئی ایم پی اے اور صوبائی وزیر رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر سردار عبد القیوم خان جتوئی معظم خان جتوئی کے برادر نسبتی ہیں۔

ماضی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے تحریک انصاف کی امیدوار زہرہ بتول کامیاب ہوئیں۔ ان کے مدمقابل انہیں کے دیور آزاد امیدوار ہارون سلطان رنر اپ رہے۔

جنرل الیکشن 2018 میں یہ نشست ممبر قومی اسمبلی سید باسط سلطان بخاری نے بطور آزاد امیدوار جیتی تھی۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی یہ نشست چھوڑ دی تھی۔ خالی ہونے والی نشست پر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر زہرا بتول بیگم کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ ماضی میں اس نشست سے باسط بخاری کے چھوٹے بھائی سابق صوبائی وزیر سید ہارون سلطان بخاری تین مرتبہ ممبر منتخب ہوچکے ہیں۔

لہذا اس حلقے میں تینوں امیدوار اتنے مضبوط ہیں کہ یہ بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ پلڑا کس کا بھاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا حلقہ پی پی 217 ملتان ہے جہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 2018 کے عام انتخاب میں شکست دے کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے آزاد امیدوار سلمان نعیم اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل شاہ محمود قریشی کے بیٹے ذین قریشی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لے رہیں۔ وہ اس حلقے سے 2018 کے انتخاب میں ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے۔

سلمان نعیم کو اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی اور ن لیگ  کی بھی حمایت حاصل ہے کیونکہ محمد سلمان نعیم ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار سلمان نعیم 35 ہزار294 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو تین ہزار578 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی۔

محمد سلمان نعیم کا تعلق ملتان کی تاجر برادری سے ہے اور پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2018 کے الیکشن کی طرح اس حلقے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کےامیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔

تیسرا حلقہ پی پی 170 لاہور ہے جہاں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن نے ترین گروپ کے نامزد امیدوار محمد امین ذوالقرنین کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف نے ظہیر عباس کھوکھر ہیں۔

اس حلقہ سے محمد امین ذوالقرنین تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2018 کے جنرل الیکشن میں 25 ہزار 180 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمران جاوید کو پانچ ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی۔

ممبر صوبائی اسمبلی محمد امین ذوالقرنین نے 2005 میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تھا اور لاہور ڈویژن کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ 2005 کے بلدیاتی انتخاب میں وہ نائب ناظم منتخب ہوئے۔

اس حلقہ میں کھوکھر برادری کا کافی اثر ورسوخ ہے اور عون چوہدری کے بھائی کے مقابلے میں شخصی طور پر زیادہ با اثر سمجھے جاتے ہیں۔ پھر گذشتہ انتخاب میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امین ذوالقرنین کامیاب ہوئے تھے مگر اب وہ ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

چوتھا حلقہ پی پی 288 ڈیرہ غازی خان کے ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی ناظم اور موجودہ ایم این اے امجد فاروق خان کھوسہ کے صاحبزادے عبد القادر خان کھوسہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار سیف الدین کھوسہ ہوں گے۔

سیف الد ین کھوسہ سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار خان کھوسہ کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ سردار دوست محمد خان کھوسہ کے بڑے بھائی ہیں۔ ڈی سیٹ ہونے والے محسن عطا کھوسہ اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار محسن عطا خان کھوسہ کامیاب ہوئے اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار سردار محمد سیف الدین کھوسہ کو شکست دی تھی۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی سردار محسن عطا خان کھوسہ کا تعلق سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے والد عطا محمد خان کھوسہ 1951 اور 1970 میں ہونے والے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔ عطا محمد خان کھوسہ 1970 میں پنجاب سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے پہلے رکن پنجاب اسمبلی تھے۔ یہاں کھوسہ برادری آمنے سامنے ہے جبکہ ن لیگ کے امیدور کو لغاری خاندان کی حمایت بھی حاصل ہے۔

وسائل بمقابلہ شہرت

ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر حکمران اتحاد کے امیدواروں کوسرکاری مشینری اور وسائل کے استعمال جبکہ اپوزیشن اتحاد کو اپنے بڑھتے شہرت کے گراف پر اعتماد دکھائی دیتا ہے۔

تجزیہ کار محمل سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان 20 حلقوں کے الیکشن کا نتیجہ آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ اسی لیے دونوں جانب سے کامیابی کو ہر صورت یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی امیدواروں کو سرکاری مشینری اور وسائل حاصل ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو اپنی شہرت پراعتماد ہے۔

محمل کے بقول زیادہ تر نشستوں پر ن لیگ کے امیدواروں کا پلڑا بھاری ہے جبکہ کئی نشستوں پر پی ٹی آئی امیدوار حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ ’ایک تو موجودہ حکومت کے مشکل فیصلے ان کے نتیجے میں مہنگائی اور 2018 کے بعد شناختی کارڈ بنوانے والے نوجوان ووٹرز کا فائدہ پی ٹی آئی امیدواروں کو ملے گا۔‘

’دوسری جانب حکومت کو پہلے سے کامیاب الیکٹ ایبل امیدوار مل گئے  ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہوگا کیونکہ وہ پہلے سے اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اب پی ڈی ایم جماعتوں کے متفقہ امیدوار بھی ہیں، وہ سب ان کی حمایت کر رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں حکومت قائم رکھنے کے لیے ن لیگ کو نو یا دس نشستیں درکار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو 12 یا 13 نشستیں چاہییں اور امیدوار بھی بعض نئے ہیں جس کا فائدہ حکومتی امیدواروں کو ہوگا۔

محمل سرفراز کے مطابق پنجاب میں بزدار حکومت کی ’ناقص کارکردگی‘ بھی پی ٹی آئی ووٹرز کو متاثر کر سکتی ہے۔ ’البتہ موجودہ حکومت بھی اب تک ریلیف فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اس لیے حتمی طور پر کسی بھی پارٹی کی واضح اکثریت دکھائی نہیں دیتی۔ میری اطلاعات کے مطابق ن لیگ کو 11 یا 12 نشستوں پر کامیابی ملنے کا امکان ہے۔‘

دیگر حلقوں میں امیدواروں کی سیاسی پوزیشن

ان نشستوں پر 2018 کے انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو 20 میں سے دس نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جو بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ حکومتی حکمت عملی کے مطابق انہی امیدواروں یا ان کے رشتہ داروں کو ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں جو 2018 میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ بعض حلقوں میں پی ٹی آئی نے ن لیگ کے ناراض مگر بااثر مقامی رہنماؤں کو ٹکٹ دیے ہیں۔

دس نشستوں پر سینٹرل جبکہ دس جنوبی پنجاب کی سیٹوں پر مقابلہ ہو رہا ہے۔

حلقہ پی پی 7 راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے منحرف سابق رکن اسمبلی راجہ صغیر احمد ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لیفٹیننٹ کرنل (ر) شبیر اعوان ہوں گے۔

کرنل ریٹائرڈ شبیر اعوان نے 2011 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جبکہ انہوں نے سیاست کا آغاز پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ وہ 2008 کے انتخابات میں پی پی 2 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

راجہ صغیر احمد نے سیاست کا آغاز مقامی سیاست سے کیا۔ راجہ صغیر احمد 44 ہزار 286 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ن لیگ کے راجہ محمد علی دوسرے جبکہ حلقے میں تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے امیدوار غلام مرتضیٰ ستی تھے۔ 2018 میں بطور آزاد امیدوار کامیاب ہونے والے راجہ صغیر احمد نے بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اس انتخاب میں پی ٹی آئی امیدوار لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ شبیر اعوان کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل باقائدہ حمایت کا اعلان بھی کیا تھا۔

حلقہ پی پی 83 خوشاب پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک غلام رسول کے بھائی امیر حیدر سنگھا مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جبکہ ان کے مد مقابل ایم این اے عمر اسلم کے چھوٹے بھائی حسن اسلم آمنے سامنے ہیں۔ حسن اسلم پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے امیدوار امیر حیدر سنگھا کو پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ امیر حید سنگھا 2015 کے بلدیاتی الیکشن میں ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی سمیرا ملک کو شکست دی تھی۔

حلقے میں تیسرے اہم امیدوار 2013 میں مسلم لیگ ن کے سابق صوبائی وزیر ملک آصف بھا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حلقے کے ایک اور اہم امیدوار حامد محمود ٹوانہ پی ٹی آئی کی طرف سے انتخابی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد حیثیت میں لڑ رہے ہیں۔

منحرف رکن ملک غلام رسول نے حلقے میں آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ ن کے ملک آصف دوسرے جبکہ تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار ملک ظفر اللہ خان تھے۔ تحریک انصاف کے امیدوار گل اصغر خان صرف آٹھ ہزار ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ ملک غلام رسول سنگھا جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔

حلقہ پی پی 90 بھکر کی بات کی جائے تو اس حلقے میں تحریک انصاف کے منحرف رکن اسمبلی سعید اکبر خان نوانی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے سابق جنرل سیکرٹری عرفان اللہ نیازی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

عرفان اللہ نیازی کے بڑے بھائی مرحوم نجیب اللہ خان اور دوسرے بھائی انعام اللہ خان دونوں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ عرفان اللہ خان نیازی 18 کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے 44 ہزار915 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔

ضمنی الیکشن میں مقابلہ بھی انہیں دونوں امیدواروں کے درمیان ہے۔ 2018 کے انتخابات میں سعید اکبر خان نوانی ساتویں مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی بنے تھے۔ یہ الیکشن انہوں نے آزاد حیثت سے جیتا اورتحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ سعید اکبر خان کے بھائی رشید اکبر خان نوانی چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

صوبائی حلقہ پی پی97 فیصل آباد سابق صوبائی وزیر محمد اجمل چیمہ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مدمقابل سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری محمد افضل ساہی کے صاحبزادے سابق ٹکٹ ہولڈر علی افضل ساہی ایک بار پھر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔

 اجمل چیمہ کو پارٹی وفارداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف اور ن لیگ کے مقامی ورکرز کی ناراضگی کا سامنا بھی ہے۔

سابق وزیر محمد اجمل چیمہ 2018 کے الیکشن کے مطابق بطور آزاد امیدوار 42273 ووٹ لے کر کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار علی افضل ساہی دوسرے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے آزاد علی تبسم حلقے میں تیسری پوزیشن پر تھے۔

حلقہ 125 جھنگ میں تحریک انصاف کے منحرف امیدوار فیصل حیات جبوآنہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے 2018 الیکشن کے ٹکٹ ہولڈر میاں محمد اعظم چیلہ کو ایک بار پھر انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اعظم چیلہ دو مرتبہ ایم پی اے رہ چکے ہیں۔

اس حلقے میں تیسرے اہم امیدوار سابق ایم پی اے مسلم لیگ ن افتخار احمد بلوچ ہیں جو حلقے میں کثیر تعداد میں برادری کا ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ افتخار احمد بلوچ 2008 کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے ایم پی اے منتخب ہوکر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے تھے۔

2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار فیصل حیاتجبوآنہ کامیاب ہوئے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں محمد اعظم کو شکست دی تھی۔ کامیابی کے بعد وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔

حلقہ پی پی127 جھنگ کو دیکھا جائے تو ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے منحرف سابق رکن صوبائی اسمبلی مہر محمد اسلم بھروان ہکو مسلم لیگ ن نے انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے 2018 الیکشن کے ٹکٹ ہولڈر مہر محمد نواز بھروانہ کو ہی ن لیگ کے مد مقابل اتارا ہے۔

مہر نوا ز بھروانہ اس سے پہلے چار مرتبہ ایم پی اے رہ چکے ہیں، جبکہ سلیم طاہر گجر نے 2018 کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑا مگر کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اب وہ اس حلقہ میں آزاد امیدوار ہیں۔

 2018 کےعام انتخابات میں آزاد امیدوار مہر محمد اسلم کامیاب ہوئے تھے جبکہ تحریک انصا ف کے امیدوار مہر محمد نواز حلقے میں دوسرے نمبر پر آئے۔ دونوں امیداروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کے بعد صرف 790 ووٹوں کے مارجن سے ہار، جیت کا فیصلہ ہوا تھا۔ جیت کر مہر محمد اسلم نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

حلقہ 140 شیخوپورہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن میاں خالد محمود ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے خرم شہزاد ورک ہیں۔

خرم شہزاد وکلا کی سیاست میں سرگرم اور بار کے صدر ہیں۔ ماضی کی انتخابی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ضمنی انتخاب میں بھی ن لیگ اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔

خالد محمود گجر 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ 2008 اور 2013 کے جنرل الیکشن میں ق لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب ہار گئے تھے۔

2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے خالد محمود کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار یاسر اقبال کو شکست دی جبکہ حلقے میں تیسرے نمبر پر ٹی ایل پی کے امیدوار قیصر ظہور گوندل رہے۔

اسی طرح لاہور کے حلقہ پی پی 158 میں ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے عبد العلیم خان الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ اس حلقے سے 2018 کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے عبد العلیم خان 52 ہزار 299 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا احسن شرافت کو شکست دی تھی۔

اب ضمنی انتخاب میں بھی رانا احسن شرافت ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے پی ٹی آٹی کے شعیب صدیقی 30 ہزار ووٹ لے کر رنر اپ رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار میاں اکرم عثمان سابق ایم این اے میاں عثمان کے بیٹے اور میاں محمود الرشید کے داماد ہیں۔

میاں اکرم عثمان 2013 جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 30 ہزارووٹ لے کر رنر اپ رہے تھے۔

حلقہ پی پی167 لاہور سے تحریک انصاف کے نذیر احمد چوہان 40 ہزار سے زائد ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ ن کے میاں محمد سلیم کو دو ہزار سے زائد ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی۔

نذیراحمد چوہان نے 2002 میں مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی اور 2008 کے عام انتخابات میں صوبائی حلقہ 140 سے انتخابی عمل کا حصہ بنے لیکن کامیاب نہ ہو پائے۔ 2012 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔

ضمنی انتخاب میں وہ ایک بار پھر پارٹی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔ تحریک انصاف نصاف نے اس حلقے سے شبیر گجر کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے بھائی خالد گجر بھی الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں مگر کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔

حلقہ پی پی 168 لاہور ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک اسد علی کھوکھر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہےہیں۔ ان کو مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

تحریک انصاف نے اس حلقہ میں ملک نواز اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ملک اسد کھوکھر نے 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست این اے 136 پر انتخاب لڑا مگر یہ نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

تاہم عام انتخابات کے فوراً بعد وہ 13 دسمبر 2018 کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اس حلقہ سے ضمنی انتخاب میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار ملک اسد کھوکھر ضمنی انتخاب میں 17 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے ایڈووکیٹ رانا خالد 16 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر رنر اپ رہے تھے۔

ساہیوال کے حلقہ پی پی 202 سے پی ٹی آئی کے منحرف سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک نعمان لنگڑیال ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے میجر (ر) غلام سرور کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

غلام سرور نے سیاست کا آغاز جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اور 2013 کے جنرل الیکشن میں انہیں جماعت اسلامی کا ٹکٹ ملا تھا۔ حلقے میں تیسرے اہم امیدوار عادل سعید گجر پی ٹی آئی کے امیدوار میجر(ر) غلا م سرور کے حق میں پہلے ہی دستبرار ہو گئے ہیں۔

ملک نعمان لنگڑیال 2002 میں نیشنل الائنس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ 2008 اور 2013 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ملک نعمان احمد لنگڑیال 57190 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار شاہد منیر کو شکست دی تھی۔

حلقہ پی پی 224 لودھراں سے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی زوار حسین وڑائچ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف نے ن لیگ کے 2018 انتخاب کے ٹکٹ ہو لڈر عامر اقبال شاہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

سابق ایم پی اے عامر اقبال کے والد سید اقبال شاہ نے ضمنی انتخاب2018 میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو 26 ہزار کے ووٹوں سے شکست دے کر سیٹ اپنے نام کی تھی۔

اس حلقے میں تیسرے اہم امیدوار سلیم اعوان ہیں، انہیں آزاد گروپ کی حمایت حاصل ہے۔

حلقہ پی پی 228 لودھراں سے ضمنی انتخاب میں ایک اور منحرف رکن اسمبلی نذیر احمد بلوچ ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے کیپٹن (ر) عزت جاوید خان ہوں گے۔ کیپٹن (ر) عزت جاوید خان 2013 سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ ماضی میں ان کا سیاسی تعلق جہانگر ترین گروپ کے ساتھ رہا۔

انہوں نے 2008 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 31 ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن ہار گئے۔2018 کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے خواشمند تھے مگر پارٹی نے انہیں نظر انداز کیا۔

سابق ایم پی اے رفیع الدین اس انتخاب میں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، مقامی ذرائع کے مطابق انہیں بھی آزاد گروپ کی حمایت حاصل ہو گی۔

اس حلقے میں اصل مقابلہ نذیر احمد بلوچ، عزت جاوید، سید رفیع الدین بخاری کے درمیان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سید رفیع الدین بخاری کے برادر نسبتی سید ارشد علی تحریک لبیک کے ٹکٹ پر الیکشن کا حصہ ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار نذیر احمد خان کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار سید محمد رفیع الدین بخاری کو شکست دی تھی۔

پی پی237 بہاولنگر سے ضمنی انتخاب میں منحرف سابق رکن اسمبلی فدا حسین کالوکا وٹو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی  نے اس حلقہ سے آفتاب محمود کو میدان میں اتارا ہے۔

حلقے میں مضبوط امیدوار فدا حسین ہی ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار آفتاب محمود پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بن رہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار فدا حسین 56 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

تحریک انصاف کے امیدوار طارق عثمان حلقے میں رنر اپ رہے تھے۔ ملک فدا حسین وٹو 1991 میں ضلع کونسل ممبر منتخب ہوئے۔ پارلیمانی سیاست میں 2008 میں قدم رکھا اور اپنے بھائی خادم حسین کی چھوڑی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2013 کے عام انتخابات میں وہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں وہ تیسری بار رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ ان کے بھائی خادم حسین کالوکاوٹو رکن قومی اسمبلی اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

والد نذر محمد 1965 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر تھے۔

پی پی 273 مظفر گڑھ ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے منحرف سابق رکن اسمبلی محمد سبطین رضا مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے جبکہ تحریک انصاف سے یاسر عرفات خان جتوئی ہوں گے۔

یاسرعرفات جتوئی ماضی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے محمد سبطین رضا کے والد افضال مصطفیٰ کو 114 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

حلقے میں کانٹے دار مقابلہ تین امیدواروں محمد سبطین رضا، یاسر فاتاور آزاد امیدوار عبد العزیز کے درمیان ہوگا۔

پی پی 282 لیہ سے ضمنی انتخاب میں سابق ایم پی اے محمد طاہر رندھاوا مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن کا حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے قیصر عباس مگسی ہوں گے۔

قیصر عباس 2008 اور 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر دو بار رکن پنجاب اسمبلی منتحب ہو چکے ہیں۔  2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار محمد طاہر رندھاوا کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔

انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار قیصر عباس خان کو شکست دی جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد ریاض تیسرے نمبر پر رہے۔ محمد طاہر رندھاوا کے بھائی محمد بشارت علی صابری نے 2005 سے 2009 تک سٹی چوک اعظم کے ناظم بھی رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست