وی پی این نوٹس عام افراد کے لیے نہیں ہے: پی ٹی اے حکام

پی ٹی اے کے نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے پی ٹی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سیاسی صورتحال سے منسلک کیا تھا۔

31 اگست 2020 کو خواتین لاہور میں اپنے فیس بک پیج پر (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے پوشیدہ اور خفیہ طریقہ کار کے آن لائن رابطوں پر نظر رکھنے کے لیے اتوار کے روز نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کمیونیکیشن کے ایسے طریقہ کار جس سے کمیونیکیشن پوشیدہ یا خفیہ ہو جائے وہ پی ٹی اے کے ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

پی ٹی اے نے اس ضمن میں کہا کہ ’پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر ادارے، غیر ملکی مشنز اور فری لانسرز جو اپنے جائز مقاصد کے لیے وی پی این استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ وی پی این رجسٹر کرائیں۔‘

پی ٹی اے نے مزید لکھا کہ وی پی این رجسٹریشن کا عمل نہایت آسان کر دیا گیا ہے اور پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر 31 اکتوبر 2022 تک رجسٹر کرایا جا سکتا ہے۔

پی ٹی اے کے اس نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے پی ٹی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سیاسی صورتحال اور تحریک انصاف کے جلسے کے دن یو ٹیوب لنک ڈاؤن ہونے سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقریر کے وقت تو سب ہی وی پی این استعمال کرتے ہیں۔

جبکہ صارف ضیغم خان نے لکھا کہ محفوظ رابطے کا ذریعہ استعمال کرنا جرم نہیں ہے جب تک کہ اس کو مجرمانہ فعل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نگہت داد نے کہا کہ آئین نے جو بنیادی حقوق دیے ہیں وہ پی ٹی اے نہیں چھین سکتا۔ انہوں نے لکھا کہ رازداری کا حق یا معلومات تک رسائی کا حق آئین نے سب کو دے رکھا ہے۔

سوشل میڈیا بحث اس بات پر جاری ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے یہ اعلان کیوں کیا اور کیا یہ انفرادی سطح پر ہے یا اداروں کی حد تک؟

جبکہ پی ٹی اے کے بیان میں واضح لکھا ہے کہ ’پبلک پرائیویٹ ادارے اور غیر ملکی مشنز جائز مقصد کے استعمال کے لیے وی پی این رجسٹر کرائیں۔‘ اس کا اطلاق عوام پر نہیں ہوتا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی اے حکام سے بھی رابطہ کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ اداروں اور کمپنیوں کے نیٹ ورکس کی حد تک ہے جو اس کا کمرشل استعمال کرتے ہیں۔ کسی عام فرد کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف ماہرین سے بات کر کے وی پی این کے استعمال سے متعلق معلوم کرنے کی کوشش کی۔

وی پی این کیوں استعمال کیا جاتا ہے، رجسٹریشن کیوں ضروری ہے؟

ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈی جی اور ماہر امور آئی ٹی عمار جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وی پی این کیا ہے۔ وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک دو لوگوں یا دو نیٹ ورکس کے مابین ورچوئل ٹنل بن جاتا ہے جس میں بیرونی مداخلت نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ وی پی این اتنا ہی کام کرتا ہے لیکن اس میں مزید سکیورٹیز ہوتی ہیں جن کو ایس ایس ایل یعنی سکیور ساکٹس لیئر کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آسان مثال ہے جیسے سڑک پہ ٹریفک جا رہی ہے تو وہاں سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے اگر ایک پرائیویٹ ٹنل بنا لی جائے جہاں محدود افراد کے داخلے کی اجازت ہو تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ کہیں کمرشل کہیں پرائیویٹ انکرپشن ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ آپ اپنا وی پی این بھی بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ٹی اے کو یہاں سکیورٹی خدشات ہیں یہ ایجنسیز کو بھی ہوتے ہیں کہ کون انکرپٹ کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا۔

انہوں نے کہا کہ ’رجسٹر کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے پوری دنیا میں یہ ہوتا ہے۔ ابھی میں چین سے ہو کر آیا ہوں تو چین میں بھی سارا کام وی پی این پر ہے کیوں کہ وہاں اُن کو شک نہیں ہے کہ غلط کام نہیں ہو گا اس لیے رجسٹر بھی ہوتے ہیں جیسے یونیورسٹی یہ طے کرتی ہے کہ یونیورسٹی کے اندر طلبا کو وی پی این کے ذریعے انٹرنیٹ پہ رسائی دی جائے گی تو یونیورسٹی کا عمل چوں کہ تدریسی ہے شک و شبے کا معاملہ نہیں اس لیے وہ رجسٹر بھی کرا لیں گے۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ صارف وی پی این ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کرتا ہے تو اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے یا وہ کیسے رجسٹر کروا سکتا ہے جب وہ اُسے اون ہی نہیں کرتا؟

ان کا کہنا تھا کہ ’پراکسی کا اپنا کھیل ہے زیادہ تر پراکسیز غلط ویب سائٹ کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن پراکسی کو اگر فیئر مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘

’پی ٹی اے کا یہ نوٹس پرانا ہے‘

پاکستان میں ڈجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی (ایم ایم ڈی) سے منسلک اسد بیگ نے اس حوالے سے کہا کہ ’پہلی بات یہ ہے کہ یہ نیا نوٹس نہیں ہے بلکہ پرانا نوٹس ہے جسے دہرایا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کے نوٹس پہ وی پی این صرف ایک مثال ہے یہ بنیادی طور پر ہر قسم کی انکرپشن کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا ’یہ نوٹس بلکل غیر عملی ہے کیوں کہ کمیونیکیشن کی عام ٹریفک کو یہ کیسے بلاک کر سکتے ہیں۔ کیا پی ٹی اے فیس بُک کو کہہ سکتا ہے کہ اپنی ٹریفک پاکستان میں انکرپٹ نہ کریں؟‘

انہوں نے کہا کہ وی پی این استعمال کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کی کمیونیکیشن محفوظ ہو۔ پاکستان کی آٹھ کروڑ کے قریب آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے تو آٹھ کروڑ کے سر پہ ڈنڈا رکھ کر انہیں وی پی این استعمال کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پی ٹی اے سے ایک میٹنگ ہوئی تھی تو انہوں نے واضح کیا تھا کہ یہ کمپنیز کے لیے ہے جیسے کال سینٹرز یا اس کے علاوہ کوئی ادارے جو وی پی این استعمال کر کے کام کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر گرے ٹریفک کو روکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ پہ گرے ٹریفک کیا ہوتی ہے؟

اسد بیگ نے بتایا کہ گرے ٹریفک وہ ہے جو کسی طریقے سے آپ کے قانونی نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے۔ جیسے پہلے لوگ جی ایس ایم استعمال کرتے ہوئے فون کال کرتے تھے اب کالز وٹس ایپ پہ ہوتی ہیں جس سے جی ایس ایم نیٹ ورک کو نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے دبئی میں وٹس ایپ کو گرے ٹریفک سمجھ کر بلاک کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کال سینٹر بھی اسی طرح ورچوئل ٹنل بنا دیتے ہیں اور اُسی سے ساری کالزکرتے ہیں اور پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے نے واضح کیا تھا کہ اس کا مقصد انفرادی سطح پہ کسی کو وی پی این کا استعمال کرنے سے روکنا نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی