پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے 75 فیصد تک زیادہ بارشیں ہوئیں: تحقیق

موسمیاتی تبدیلی کا جائزہ لینے والے ادارے ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں اس سال اگست میں تین گنا زیادہ بارشیں دیکھنے میں آئیں۔

14 جولائی 2022 کو لاہور میں تیز بارش کے بعد لوگ سیلابی پانی سے گزر رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

پاکستان میں اس مون سون میں زیادہ تباہی موسمیاتی تبدیلی کے ہی باعث ہوئی، یہ بات ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے بھی اپنے تجزیے میں ثابت کرنے کی کوشش کی۔

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن ایک ایسا موسمیاتی تبدیلی کے جائزے کا ادارہ ہے جو بدترین موسمی حالات پر سائنسی تحقیق کرتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معمول سے 50 سے 75 فیصد زیادہ بارش موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی، جس کے بعد سیلابی صورت حال سے 1400 سے زائد اموات ہوئیں اور تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوکر رہ گئی۔

یہ پہلی بار ہے کہ کسی سائنسی مطالعے میں بارشوں اور سیلابوں کی شدت سے موسمیاتی تبدیلی کے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہو۔

اس تحقیق میں 10 ممالک سے 26 ریسرچرز نے حصہ لیا، جنہوں نے سائنسی ماڈل اور تاریخی ڈیٹا کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کی کہ ایسا شدید سیلاب تب بھی آتا اگر 1800 کے آخر سے دنیا کے درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ اضافہ نہ ہوا ہوتا۔

اس سٹڈی میں دو ڈیٹا سیٹ استعمال ہوئے جس میں پاکستان کے سب سے بڑے دریا، دریائے سندھ میں جون اور ستمبر کے مہینوں میں 60 دنوں تک تیز بارشوں کا تجزیہ کیا گیا۔

دوسرے سیٹ میں پانچ دن کے دوران بارشوں کی شدت کا اندازہ سندھ اور بلوچستان میں لگایا گیا جو بدترین سیلابی صورت حال کا شکار ہوئے۔

سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کی شدت میں اضافہ 75 فیصد تک پایا گیا جبکہ 60 دنوں تک ریکارڈ کی گئیں بارشوں کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔

مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان بھر میں اس سال اگست میں تین گنا زیادہ بارشیں دیکھنے میں آئیں جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بلترتیب سات اور آٹھ گنا زیادہ ماہانہ بارشیں دیکھنے کو ملیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس طرح کے واقعات ہر 100 سال میں ایک بار ہوسکتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں، گرمی کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہر سال واقع ہونے کا ایک فیصد امکان ہے۔

سٹڈی کے مطابق: ’یہی واقعہ شاید ایسی دنیا میں بہت کم ہوتا جہاں انسانوں کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نہ ہوتے، مطلب کہ موسمیاتی تبدیلی نے ممکنہ طور پر شدید بارشوں کو بہت حد تک ممکن بنا دیا۔ ‘

عالمی پیرس معاہدے میں درج 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک عالمی درجہ حرارت کو محدود کرنے کی کوششوں کے باوجود اس طرح کے واقعات کے زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ یہاں تک کے دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے بھی صورت حال ابتر ہوسکتی ہے۔

سائنسی ادارے کی شریک سربراہ اور گرانتھم انسٹی ٹیوٹ میں موسمیاتی سائنس کی سینیئر لیکچرر ڈاکٹر فریڈریکے اوٹو کے بقول: ’ ہمارے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے اس واقعے میں ایک اہم کردار ادا کیا، حالانکہ ہمارے تجزیے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کتنا بڑا کردار تھا۔‘

ڈاکٹر اوٹو نے کہا کہ حساب کی غیر یقینی کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کا ایک سال سے دوسرے سال تک موسم بہت مختلف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مشاہدہ شدہ ڈیٹا اور آب و ہوا کے ماڈلز میں طویل مدتی تبدیلیوں کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’ تاریخی ریکارڈ کے مطابق بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں جب سے انسانوں نے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسوں کو فضا میں خارج کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے تیز بارش میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اور ہمارا اپنا تجزیہ بھی واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ گرمی میں مزید اضافہ ان تیز بارشوں کی شدت میں اضافہ کر دے گا۔‘

موسمیاتی بحران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موسمی نظام کی تبدیلیوں جیسے مشرقی مون سون بارشوں اور خطے میں مغربی اثرات میں بھی اس نے کردار ادا کیا ہے، جس کی طرف ماہرین موسمیات کافی عرصے سے اشارہ کر رہے ہیں۔

دریاؤں میں طغیانی میں گلیشیئرز کے پگھلنے کے کردار کا بھی ذکر کیا گیا، جو کہ اپریل سے مئی میں مہلک ہیٹ ویو کی وجہ سے تیزی سے پگھلے، جب پاکستان کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا۔ پاکستان میں 7000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو قطبین کے باہر کسی بھی ملک کے لیے سب سے زیادہ ہیں۔

تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تباہی کے پیمانے کے پیچھے بھی متعدد عوامل موجود ہیں۔ پاکستان کے انفراسٹرکچر کی کمزوریوں، آبادی کے اضافے، غربت کی شرح اور سیاسی عدم استحکام نے اسے پہنچنے والے نقصان میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

مگر ان سب عوامل اور امیر ممالک کی جانب سے پیدا کردہ موسمی تبدیلی کے باوجود پاکستان عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 27 میں اپنا کیس کس طرح پیش کرے گا اور اس پر کیا اتفاقَ رائے ہوگا یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات