گرین بیلٹس پر تجاوزات: اسلام آباد انتظامیہ کا کارروائی کا عندیہ

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن کے مطابق شہر کی انتظامیہ کو گرین بیلٹس پر رہنے والوں کے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں

اسلام آباد کے تاجروں کے خیال میں گرین بیلٹس پر رہنے والے قابضین کو حکومتی پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا جائے، جہاں انہیں دسترخوان سے مفت کھانا بھی دستیاب ہو گا (تصویر: اے ایف پی)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ شہر میں گرین بیلٹس پر غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کو وہاں سے ہٹانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن کے مطابق شہر کی انتظامیہ کو گرین بیلٹس پر رہنے والوں کے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اکثر سڑکوں کے کنارے اور درمیان میں واقع گرین بیلٹس پر بیسیوں افراد گذشتہ کئی کئی سالوں سے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔

اسلام آباد کے مقامی شہریوں اور تاجر برادری نے شہر کے اہم مقامات سمیت گرین بیلٹس پر رہائش پذیر بے روزگار افراد کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

شہر کے تاجروں نے حال ہی میں اسلام آباد شہر کی انتظامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں گذشتہ اتوار کو ہونے والے ایک واقعے کا حوالہ دیا ہے جس میں سیکٹر جی سکس فور میں میلوڈی کے علاقے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سفیر اللہ کو چاقوؤں کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

مقتول کے چچا نیاز خان نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بھتیجے اور ایک دوسرے شخص نور نواز کے درمیان علی الصبح معمولی تکرار کے بعد جھگڑا ہوا اور ملزم نے ’چاقوؤں کے وار کر کے سفیراللہ کو قتل کر دیا۔‘

اسلام آباد جو دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں ایک ہے، وہاں سڑک کنارے اور گرین بیلٹس میں کپڑوں کے چیتھڑوں اور چٹائیوں سے بنی غیر قانونی جھگیاں قائم ہیں۔

شہر میں سیکٹر جی سکس کے علاوہ کئی دوسرے مقامات پر بھی گرین بیلٹس میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

میلوڈی کی ایک گرین بیلٹ پر گذشتہ کئی سال سے رہائش پذیر شمروز گل (فرضی نام) کا کہنا تھا: ’ہم یہاں گاڑیاں دھوتے ہیں، اسلام آباد مہنگا شہر ہے، کرائے کا گھر نہیں لے سکتے، اسی لیے یہاں رہتے ہیں۔‘

شمروز خان کا مزید کہنا ہے کہ گرین بیلٹ پر رہنے والوں کی اکثریت شریف لوگوں پر مشتمل ہے، جنہوں نے کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے میلوڈی اور ارد گرد کے دوسرے تاجروں اور دکان داروں کے ساتھ اچھے مراسم ہیں اور کسی نے کبھی ان کی شکایت نہیں کی۔

’یہ لوگ تو اکثر ہمیں کھانا وغیرہ بھی دیتے ہیں، ہم ان کی گاڑیاں بھی دھوتے ہیں اور اس کا معاوضہ لیتے ہیں۔‘

گرین بیلٹس پر رہنے والوں کے لیے یہ سبزہ زار ہی گھر اور روزگار حاصل کرنے کی جگہیں بن گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تعمیراتی کاموں کے لیے مزدوروں کی تلاش کرنے والے ٹھیکے دار ایسے مقامات پر آتے ہیں ان میں سے کچھ کو دیہاڑی کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں اور جنہیں مزدوری نہیں ملتی وہ وہیں تمام دن روزگار کی تلاش میں انتظار کرتے رہتے ہیں۔

میلوڈی کے علاقے کے ایک تاجر کا نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے قبل بھی کئی واقعات ہو چکے ہیں جن کو رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔

اس دکان دار کا کہنا تھا: ’اسی شہر اسلام آباد میں عمران خان حکومت کے قائم کردہ مسافر خانے موجود ہیں، ان لوگوں کو وہاں باآسانی رکھا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف حکومت نے کوویڈ 19 کی وبا کے دوران ملک بھر میں احساس پروگرام کے تحت 21 پناہ گاہیں قائم کی تھیں، جن میں سے پانچ اسلام آباد میں ہیں۔

ان پناہ گاہوں میں بے گھر افراد اور مسافروں کو بغیر کسی معاوضے کے رات گزارنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

ہر پناہ گاہ سے متصل ’دسترخوان‘ کے نام سے ایک سہولت بھی موجود ہے، جہاں ضرورت مندوں کو دن میں تین وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔

میلوڈی کے تاجر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں گرین بیلٹس پر قابض افراد کو سرکاری پناہ گاہوں میں رکھا جا سکتا ہے۔

’اس سے ان لوگوں کا رہائش اور کھانے پینے کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ہمارے عدم تحفظ کے احساس میں بھی کمی آئے گی۔‘

اسلام آباد انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گرین بیلٹس پر غیر قانونی طور پر رہنے والوں کے خلاف ایکشن کبھی کارگر ثابت نہیں ہوا، کیوں کہ کچھ عرصہ حوالات یا جیل میں گزارنے کے بعد یہ لوگ دوبارہ واپس آ جاتے ہیں اور وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کے باعث اکثر لوگ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جن میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔

’یہاں بھی روزگار کی حالت کوئی بہتر تو نہیں ہے، اس مسئلے کا واحد حل ان لوگوں کو روزگار دینا ہے اور بہتر ہو گا اگر انہیں ان کے اپنے علاقوں میں روزگار فراہم کیا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان