ٹیسلا کا انسان نما روبوٹ ستمبر کے آخر میں پیش ہو رہا ہے

آپٹیمس روبوٹ میں وہی سینسرز اور چپ سیٹس استعمال ہو رہے ہیں جو ٹیسلا کی مقبول سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

20 اگست، 2022 کو ٹیسلا کے اے آئی ڈے پر نشر ہونے والی لائیو ویڈیو سے لیے گئے سکرین گریب میں ٹیسلا کا  انسان نما روبوٹ آپٹیمس (روئٹرز/ ٹیسلا/ ہینڈ آؤٹ)

اس ماہ کے آخر میں جب ایلون مسک مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے چلنے والا اپنا پہلا ٹیسلا روبوٹ متعارف کرائیں گے تو یہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی کے لیے ایک نیا باب ہوگا۔

یہ انسان نما روبوٹ ’آپٹیمس‘ درحقیقت انہی سینسرز اور چپ سیٹس سے بنایا گیا ہے جو ٹیسلا کی مقبول سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

جب دنیا کے امیر ترین شخص نے 2021  میں پہلی بار روبوٹ کا تصور متعارف کرایا تھا تو کمپنی نے بتایا تھا کہ یہ پانچ فٹ آٹھ انچ لمبا اور 125 پاؤنڈ وزنی ہوگا۔

ٹیسلا نے دعویٰ کیا تھا کہ آپٹیمس 150 پاؤنڈ اٹھانے، 45 پاؤنڈ لے جانے اور پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مسک نے مذاق میں کہا کہ روبوٹ کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے گا کہ انسان اس سے بھاگ سکیں اور اس پر قابو پا سکیں۔

روبوٹ کے سر میں ٹیسلا کے آٹو پائلٹ کیمرے نصب کیے جائیں گے، اور اس میں ضروری معلومات کے لیے سکرین بھی لگائی جائے گی۔

’چائنا سائبر سپیس‘ میگزین کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں مسک نے کہا، ’آپٹیمس کو بار بار کیے جانے والے بورنگ اور خطرناک کاموں میں انسانوں کی جگہ لانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

’لیکن ان کا وژن یہ ہے کہ وہ لاکھوں گھروں میں کام کریں، جیسا کہ کھانا پکانا، لان کی گھاس کاٹنا اور بزرگوں کی دیکھ بھال کرنا۔

’اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ کافی ہوشیار روبوٹ بنائے جائیں اور ہمارے پاس بڑے پیمانے پر روبوٹ تیار کرنے کی صلاحیت ہو۔‘

ان کے بقول: ’ہمارے ’چار پہیوں والے روبوٹس‘ یعنی کاروں، نے لوگوں کے سفر کرنے اور یہاں تک کہ رہنے کے انداز کو بھی بدل دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایک دن جب ہم سیلف ڈرائیونگ کاروں (یعنی حقیقی دنیا کی مصنوعی ذہانت) کے مسئلے کو حل کریں گے تو ہم مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو انسان نما روبوٹس تک پھیلا سکیں گے، جس کا کاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ استعمال ہوگا۔

’ہمارا ارادہ ہے کہ اس سال ایک انسان نما روبوٹ کا پہلا پروٹوٹائپ لانچ کریں اور اس روبوٹ کی ذہانت کو بہتر بنانے اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔‘

انہوں نے مضمون میں لکھا: ’اس کے بعد، انسان نما روبوٹس کی افادیت ہر سال بڑھ جائے گی جیسے ہی پیداوار بڑھے گی اور لاگت کم ہوگی۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں، گھریلو روبوٹ کار سے سستا ہو۔

’شاید ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں لوگ اپنے والدین کے لیے سالگرہ کے تحفے کے طور پر ایک روبوٹ خریدنے کے قابل ہوں۔‘

مسک 30 ستمبر کو کمپنی کے سالانہ اے آئی ڈے کے موقعے پر روبوٹ کا پہلا پروٹوٹائپ متعارف کرائیں گے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی