ایران کی خبر رساں ایجنسی ایسنا کے مطابق وزارت خارجہ نے ہفتے کو دو غیر ملکی سفیروں کو حالیہ مظاہروں کے تناظر میں دفتر خارجہ طلب کر لیا۔
حال ہی میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد دارالحکومت تہران سمیت ایران کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر ہیں، جہاں ان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اتوار کو ایرانین سٹوڈنٹس نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ برطانیہ اور ناروے کے سفیروں کو مظاہروں کی کوریج اور اس پر تبصروں کے الزام میں طلب کیا ہے۔ ان سفیروں سے اس معاملے پر وضاحت بھی مانگی گئی ہے۔
ایسنا کے مطابق برطانوی سفیر کو واقعے کی کوویج پر ’مخالفانہ‘ رپورٹنگ پر طلب کیا گیا۔
دوسری جانب ناروے کے سفیر کو ناروے کی پارلیمان کے سپیکر کے ایران کے اندرونی معاملے پر ’مداخلت پسندانہ موقف‘ رکھنے پر وضاحت طلب کی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ ایک سرکاری تعداد کے مطابق اب تک ایران میں مظاہروں میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر مظاہرین تھے لیکن ان میں اسلامی جمہوریہ کی سکیورٹی فورسز کے ارکان بھی شامل ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد کافی زیادہ ہے۔
حمایت کے پیغاموں میں تازہ ترین اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ایرانی فلمساز اصغر فرہادی کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہ کہ ایران کی ’ترقی پسند اور بہادر خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اپنے انسانی حقوق کے لیے مظاہروں کی قیادت کر رہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ سیکورٹی فورسز نے براہ راست گولیاں چلائی ہیں جب کہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور پولیس کی گاڑیوں اور ریاستی عمارتوں کو نذر آتش کیا اور ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔
ہفتے کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ملک میں جاری مظاہروں کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کو ’ملک کی سلامتی اور امن کے خلاف‘ کام کرنے والوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے۔
روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ صدر ابراہیم رئیسی نے یہ بات چاقو کے وار سے ہلاک ہونے والے ایک سرکاری اہلکار کے اہل خانہ سے تعزیت کے موقع پر کہی۔
اس اہلکار کو گذشتہ ہفتے مہسا امینی کی پولیس حراست میں پراسرار موت کے بعد ملک بھر میں پھوٹنے والے مظاہروں کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔
16 ستمبر کو امینی کی موت کے بعد رات کے وقت ہونے والے مظاہروں اور سڑکوں پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد سے سینکڑوں مظاہرین، اصلاح پسند کارکنوں اور صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور پھر یہ کئی شہروں میں پھیل گئے۔
گذشتہ تین سال کے دوران ایران میں ہونے والے ان بڑے مظاہروں کی قیادت خواتین نے کی ہے۔