عامر جمال: ٹیلنٹ ہے بھروسہ تو کریں

لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ایک نوجوان بولر نے اپنی پرفارمنس سے بتا دیا ہے کہ ٹیلنٹ موجود ہے بھروسہ تو کریں۔

نوجوان عامر جمال نے اپنے پہلے ہی میچ میں ٹیم کے فتح میں اہم کردار ادا کیا (اے ایف پی)

پاکستان ٹیم کی بیٹنگ مسلسل تنقید کی زد میں ہے اور اس کی وجہ کبھی اوپنرز کا سٹرائیک ریٹ بن جاتا ہے تو کبھی مڈل آرڈر۔۔ مگر تنقید کرنے والوں کے پاس حل صرف ایک ہی ہوتا ہے اور ہے ٹیم میں تبدیلیاں۔

اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ ’کس کو کھلائیں اور کس کو بٹھائیں۔‘

مگر لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ایک نوجوان بولر نے اپنی پرفارمنس سے بتا دیا ہے کہ ٹیلنٹ موجود ہے بھروسہ تو کریں۔

پاکستان نے قذافی سٹیڈیم میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کی کہانی کا آغاز وہیں سے کیا جہاں نیشنل سٹیڈیم میں اختتام میں ہوا تھا۔

ایک بار پھر پاکستان کی مایوس کن بیٹنگ اور ایک بار پھر اس بیٹنگ پرفارمنس کو اپنی کارکردگی سے چھپانے کے لیے پاکستان کا بولنگ اٹیک حاضر۔

میزبان ٹیم جو ٹاس جیت کر نہ جانے کیوں پہلے بولنگ کرنا چاہتی تھی کو خلاف خواہش پہلے بیٹنگ کی دعوت دی گئی تو انگلینڈ نے بھی نیشنل سٹیڈیم میں بنائے منصوبے کو دوہرایا اور تیز، باؤنسی گیندوں سے بلے بازوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔

بابر اعظم جن کی اسی سیریز میں سینچری کے بعد کہا جا رہا تھا ان کی فارم واپس آ گئی ہے مگر نہ دکھائی دے رہی ہے اور نہ انہیں اٹھتی گیندیں سمجھ آ رہی ہیں۔

سوائے دنیا کے نمبر ایک بلے باز محمد رضوان کے کوئی بلے باز نہ تو ٹکا نہ چلا۔

رضوان نے عادت سے مجبور ہو کر ایک اور نصف سنچری سکور کر دی۔ ان کی نصف سنچریوں پر تو اب مبصرین یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’انہیں نصف سنچریاں سکور کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘

انہوں نے 63 رنز کی اننگز کھیلی اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ باقی بلے باز مل کر بھی ٹیم سکور کو ڈیڑھ سو تک بھی نہ پہنچا سکے۔

پاکستان کے 145 رنز کے جواب میں انگلینڈ کے بلے بازی بھی ویسی ہی تھی جس کی وجہ لاہور کی پچ ہے جہاں کراچی کے مقابلے میں رنز بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

اوپر سے ڈیوڈ ملان اور پھر کپتان معین علی کے علاوہ کوئی بھی بڑی اننگز نہ کھیل سکا۔ کیونکہ ایک تو کنڈیشنز مشکل تھیں اور دوسری وجہ پاکستان بولرز کی فارم ہے جو وہ کافی عرصے سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔

حالانکہ اس میچ سے قبل بھی سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا تھا کہ حارث رؤف کو بہت زیادہ میچز کھیلائے جا رہے ہیں جبکہ انہیں اب ورلڈ کپ سے قبل تھوڑا آرام دینا چاہیے۔

دوسری جانب بابر اعظم کی مشکل کو بھی سمجھنا ہوگا جنہیں شاہین آفریدی کی فکر ہے، ساتھ ہی نسیم شاہ بیمار پڑ گئے ہیں اور محمد حسنین کی لائن و لینتھ ٹھیک نہیں ہو پا رہی ہے۔

ایسے میں انہوں نے آج نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کی کارکردگی پر سکواڈ کا حصہ بننے والے نوجوان عامر جمال کو کھلانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔

مگر عامر جمال نے کپتان اور ٹیم مینیجمنٹ کو بالکل مایوس نہیں کیا اور بابر اعظم سے تعریف بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیشنل سٹیڈیم کراچی میں کھیلے گئے آخری میچ میں بھی پاکستان نے ہدف کا عمدہ انداز میں دفاع کیا تھا مگر آج صورتحال قدرے مختلف تھی۔

کراچی میں حارث رؤف نے 19واں اوور انتہائی مہارت سے کروا کر صرف پانچ رنز دے کر دو اہم وکٹیں حاصل کی تھیں جس سے آخری اوور کروانے والے محمد وسیم جونیئر کو موقع ملا کے وہ 11ویں نمبر پر کھیلنے والے بلے باز کو پریشان کر سکیں۔

اس بارے میں میچ کے بعد حارث رؤف نے کہا کہ وہ ان کنڈیشنز اور پچز کو جانتے ہیں اس لیے انہیں بولنگ کرانے میں زیادہ مشکل نہیں ہو رہی۔

مگر آج ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ حارث رؤف نے 19ویں اوور میں وکٹ تو حاصل کی لیکن 13 رنز بھی دیے اور آخری اوور اس بولر نے کرانا تھا جو اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ کھیل رہا تھا۔

لیکن لیکن لیکن۔۔۔ اپنا پہلا میچ کھیلنے والے عامر جمال نے کیا ہی اوور کرایا۔ ان کے سامنے موجود بلے باز معین علی تھے جو سکور بھی کرتے آ رہے ہیں اور بڑی ہٹیں لگانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

عامر جمال کو آخری اوور میں 15 رنز کا دفاع کرنا تھا۔ اس اوور میں ان کا پلان بالکل سادہ تھا۔ انہوں نے کوئی نیا تجربہ نہ کرتے ہوئے معین علی کو مسلسل آف سائڈ سے باہر فل لینتھ گیندیں کرائیں۔

چونکہ معین علی زیادہ تر لیگ سائڈ لیا پھر بالکل ایمپائر کے سر کے اوپر سے کھیلتے ہیں انہیں آف سائڈ سے باہر کی گیندوں پر مشکل ہو رہی تھی۔ عامر جمال نے اس اوور میں صرف ایک گیند بری کرائی جس پر انہیں چھکا لگا۔

اس طرح انگلینڈ ایک بار پھر آخری اوور میں ہدف سے کچھ قدم دور ہی لڑکھڑا گیا اور پاکستان کو سیریز میں برتری حاصل ہو گئی۔

عامر جمال کے بارے میں پاکستان کے نائب کپتان شاداب خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’عامر جمال پرفارمنس دے کر ٹیم میں آئے ہیں اور پرفارمنس کا اعتماد ہی الگ ہوتا ہے۔‘

ان کے آخری اوور کے بارے میں شاداب خان نے کہا کہ ’انہیں (عامر جمال) کو خود پر بھروسہ تھا اور ہمیں بھی بھروسہ تھا یہی وجہ ہے کہ وہ یہ میچ کھیلے اور آخری اوور بھی کرایا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آخری اوور میں رنز پڑ بھی جاتے تو ہم انہیں سپورٹ کرتے، کیونکہ وہ ہمارے ایمرجنگ پلیئر ہیں۔‘

ایک بار پھر ایک اور نوجوان کھلاڑی کی پرفارمنس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، بس انہیں کھلانے، اعتماد دینے اور بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ