پنجاب میں پیلے یرقان سے حاملہ خواتین کو بڑھتا خطرہ

لاہور کے سب سے بڑے سرکاری زچہ و بچہ ہسپتال لیڈی ولنگٹن کی ایک گائناکالوجسٹ کے مطابق ہسپتال میں رواں سال مارچ سے لے کر اب تک 200 حاملہ خواتین میں ہیپیٹائٹس اے اور ای کی تشخیص ہوئی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق حمل کے دوران ہیپیٹائٹس اے اور ای زیادہ شدت سے وار کرتا ہے کیونکہ حمل کی وجہ سے عورت کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور وہ جلد بیمار پڑ سکتی ہے(بشکریہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ)

ماہیرن صحت کے مطابق صوبہ پنجاب میں ہیپیٹائٹس اے اور ای، یعنی پیلے یرقان، کے مریضوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گندے پانی سے پھیلنے والی اس بیماری نے جہاں چھوٹوں بڑوں سبھی کو متاثر کیا ہے وہیں حاملہ خواتین بھی بڑی تعداد میں اس کا شکار ہو رہی ہیں۔

 لاہور کے سب سے بڑے سرکاری زچہ و بچہ ہسپتال لیڈی ولنگٹن کی ایک گائناکالوجسٹ اورسینئیر رجسٹرار خاتون ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لیڈی ولنگٹن میں رواں سال مارچ سے لے کر اب تک 200 حاملہ خواتین میں ہیپیٹائٹس اے اور ای کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے 10 خواتین بچے کی پیدائش سے پہلے یا اس کے دوران زندگی کی بازی ہار گئیں۔

ڈاکٹر کے مطابق ان حاملہ خواتین کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان تھی، وہ متوسط طبقے سے تھیں اور زیادہ کا تعلق لاہور شہر کے بادامی باغ، لاہوری گیٹ، شاہ عالم، چائنہ سکیم، موڑ کھنڈا علاقوں سے تھا جبکہ کچھ کا تعلق نارروال اور شیخوپورہ سے بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران ہیپیٹائٹس اے اور ای زیادہ شدت سے وار کرتا ہے کیونکہ حمل کی وجہ سے عورت کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور وہ جلد بیمار پڑ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران ہیپیٹائٹس ای ہونے کے سبب بچہ کسی بھی وقت ماں کے پیٹ میں دم توڑ سکتا ہے البتہ پیدائش کے بعد یہ ماں سے بچے میں خون کے ذریعے منتقل نہیں ہوسکتا۔ نومولود بچوں میں یہ وائرس اسی صورت منتقل ہوسکتا ہے اگر ماں اپنی صفائی کا خیال نہ رکھے جیسے رفع حاجت کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر ماں اگر بچے کو دودھ پلائے تو اس وائرس کے منتقل ہونے کا خدشہ 100 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

یارکان کا پھیلاو

حکومت پنجاب کے سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پنجاب کے 44 سرکاری ہسپتالوں سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2018 سے اپریل 2019 تک پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ہیپیٹائٹس اے اور ای کے 5535 مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے ہیپیٹائٹس اے میں مبتلا مریضوں کی تعداد 3443 اور ہیپیٹائٹس ای میں مبتلا مریضوں کی تعداد 1484 ہے جبکہ میو ہسپتال لاہور، ڈی ایچ کیو فیصل آباد اور نشترہسپتال ملتان میں دونوں وائرسز میں مبتلا 608 مریض رپورٹ ہوئے۔

 ہیپیٹائٹس اے کے سب سے زیادہ مریض لاہور کے سید مٹھا ہسپتال میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 1665 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جناح ہسپتال لاہور جس میں ہیپیٹائٹس اے کے 431 مریض رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ہیپیٹائٹس ای میں مبتلا مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد، 426، بےنظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی میں رپورٹ ہوئی جبکہ دوسرے نمبر پر گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان سے 235 مریض رپورٹ ہوئے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں ہیپیٹائٹس اے اور ای کے مریضوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے چند روز قبل سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان فار ہیومن رائٹس کے صدر ایڈووکیٹ عبدااللہ ملک نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے کمشنر لاہور کو طلب کیا اور انہیں حکم دیا کہ اس سلسلے میں وہ فوری ایک جامع حکمت عملی تشکیل دے کر 18 جولائی کو عدالت میں پیش کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمان کاظمی کے مطابق کمشنر لاہور نے فوری ایک میٹنگ بلائی جس میں وہ بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں  کمشنر لاہور نے سیکرٹری برائے پنجاب حکومت سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ، چئیرمین پنجاب انفورمیشن ٹیکنالوجی بورڈ، واسا کے نمائندے، لاہور ویسٹ مینیجمنٹ، پنجاب فوڈ اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر لاہور، ڈی جی ہیلتھ پنجاب، ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن، اور سوشل ویلفئیر وغیرہ کو ملا کر کل 22 محکموں کے متعلقہ افسران کو شامل کیا گیا۔

اس دوران متفقہ طور پر ایک حکمت عملی تیار کی گئی جس میں تجویز کیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں مہم چلائی جائیں، مختلف سافٹ وئیر بنا کر سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونے والے یا زیر علاج مریضوں کا ریکارڈ ایک جگہ اکٹھا کیا جائے، ہیپیٹائٹس ایکٹ 2018 کا نفاذ کیا جائے، بڑے پیمانے پر ہیپیٹائٹس اے اور ای سے بچاؤ کے حوالے سے تشہیری مہم چلائی جائے، ہیپیٹائٹس اے ، بی ،سی اور ای کے مریضوں کے لیے ایک موبائل ایپ بنائی جائے تاکہ ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹر مریضوں کی تعداد اور ان کی صحت کے حوالے سے آگاہ رہ سکیں۔

 ان سب تجاویز کو کو رپورٹ کا حصہ بنا کر 18 جولائی کو عدالت میں جمع کروادیا گیا جس کے بعد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ اس رپورٹ میں شامل تجاویز پر پہلے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لاہور ڈویژن میں کام شروع کیا جائے۔ حکمت عملی کو صوبائی سطح پر نافذ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اگلی سماعت میں ہوگا۔

 اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ نجی ہسپتالوں سے بھی اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں جبکہ ہیلتھ کیئر کمشن اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت پنجاب ڈاکٹر ہارون جہانگیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہیپیٹائٹس اے اور ای دونوں وائرس گندے پانی اور خراب کھانے کی وجہ سے پھیلتے ہیں اس لیے اس میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بیماری کسی خاص علاقے میں ہے۔ ’یہ اس وقت پورے پنجاب بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔‘

 ڈاکٹر ہارون نے بتایا کہ انہوں نے ایک ٹیکنیکل ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا ہے جس میں سپیشل ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنیکل اور دیگر محکموں کے لوگ بھی شامل ہیں۔

’اس گروپ  کی ہر 15 دن بعد میٹنگ ہوگی اور ہم ان کی کارکردگی کی رپورٹ لیں گے کہ اس میں فوڈ اتھارٹی نے کیا کیا، واسا نے کیا کیا۔‘

 انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہیپیٹائٹس ای کی ویکسینیشن مارکیٹ میں موجود ہے مگر وہ معیاری نہیں ہے نہ اتنی موثرہے کیونکہ ایک تو وہ بہت مہنگی ہے دوسرا عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تجویزکردہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق اسے لگوا تو سکتے ہیں مگر اس کے سائیڈ افیکٹس بہت زیادہ ہیں۔

ڈاکٹر ہارون نے بتایا: ’اس بیماری کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں سہولیات موجود ہیں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اسے ہونے ہی نہ دیں ۔آج کل بارشوں کے موسم میں اس کے پھیلنے کے زیادہ چانسز ہیں کیونکہ اگر گندا سیورج کا پانی صاف پانی میں شامل ہوگا تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔‘

انہوں نے عوام خاص طور پر حاملہ خواتین کو مشورہ دیا کہ اگر منرل واٹر کی بوتلیں موجود نہیں ہیں تو وہ پانی ابال کر صاف برتن میں پئیں۔ کھانا گھر کا کھائیں اور باہر کھانے سے پہلے سو بار سوچیں کہ کہہں آپ باسی یا خراب کھانا تو نہیں کھا رہے کیونکہ اسی طرح سے بچا جاسکتا ہے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہیپیٹائٹس اے اور ای انفیکشن اُس پانی سے پھیلتا ہے جس میں انسانی فضلہ شامل ہو۔ جب ایسے پانی کو پیا جاتا ہے یا اُس سے جب کسی سبزی یا پھل کو دھویا جاتا ہے تو وہ جراثیم اس پھل یا سبزی یا کھانے کی چیز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جب بغیر صاف پانی سے دھوئے اُس چیز کو کھایا جائے تو یہ مرض انسانی جسم میں شامل ہو کے اُس کے جگر کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ حاملہ عورتوں میں کیونکہ یہ شدت سے حملہ کرتا ھے اس لیے ان میں جگر فیل ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ پانی ابال کر استعمال کریں، پھل اور سبزی اچھی طرح  صاف پانی سے دھو کر استعمال کریں اور شدید الٹیاں، یا جلد کی اور آنکھوں کی رنگت پیلی ہونے پر فوراً مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت