شیر عباس ستانکزئی کے سخت لہجے کی وجہ؟

پاکستان اگر روزانہ بین الاقوامی برادری سے طالبان حکومت کے ساتھ رابطوں کی بات کرتا ہے تو خود بھی سوچ لے کہ کابل میں ہر حکومت کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کیوں رہتا ہے؟

طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی کو وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 23 ستمبر کی تقریر پر سخت غصہ تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی کے اس حالیہ بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے گذشہ 20 سالوں میں افغانستان پر تجارت کی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے بیان کو ’انتہائی افسوسناک اور ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس بیان پر تشویش ہے کیونکہ اس طرح کے بیانات دونوں ممالک کے ’دوستانہ تعلقات کی روح کے خلاف‘ ہیں۔

سخت بیانات کا تبادلہ جب اجتماعات اور میڈیا میں ہوتا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں دوطرفہ مذاکرات کے لیے موجود ایک باقاعدہ نظام کو نظر انداز کرکے میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔

گذشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ کابل میں طالبان حکومت اور پاکستانی حکام نے اتفاق کیا تھا کہ سابق صدر اشرف غنی کے دور میں مذاکرات کے لیے شروع کیے گئے افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی (اے پی اے پی پی ایس) کو استعمال کیا جائے گا۔

لیکن عملاً ایسا نہیں ہو رہا اور دونوں اس میکنزم کو غیر موثر بنانے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ بیانات میں ’بلیم گیم‘ کی روایت کو جاری رکھا گیا ہے۔

شیر عباس ستانکزئی کو وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 23 ستمبر کی تقریر پر سخت غصہ تھا، جس میں انہوں (شہباز شریف) نے بین الاقوامی برادری کے افغانستان میں غیر ملکی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں سے دنیا کے امن کو ممکنہ خطرے سے اتفاق کیا تھا۔

شہباز شریف نے القاعدہ، داعش، چینی مسلمانوں کی تنظیم مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، ازبک گروپ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اور تحریک طالبان پاکستان کا نام لیا تھا۔

جب 30 ستمبر کو ایک خود کش حملہ آور نے کابل میں ایک سکول کے طلبہ و طالبات کو نشانہ بنایا تو شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان میں دہشت گردی کے خطرے سے متعلق اپنی تقریر کا حوالہ بھی دیا۔

کابل میں اقوام متحدہ کے دفتر نے تین اکتوبر کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ  ہزارہ برادری کے ایک تعلیمی ادارے پر حملے میں ہلاک ہونے والے طلبہ و طالبات کی تعداد 53 اور زخمیوں کی تعداد 100 سے بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن اہل تشیع کے علاقے دشت برچی میں ماضی میں عوامی مقامات پر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

ویسے تو افغان وزارت خارجہ نے پاکستانی وزیراعظم، امریکی صدر اور کئی دیگر سربراہان کے افغانستان سے متعلق ریمارکس پر باضابطہ ردعمل جاری کیا تھا لیکن افغان عبوری نائب وزیر خارجہ کے بیان میں پاکستان سے متعلق لہجہ بہت سخت تھا۔

شیر عباس ستانکزئی نے اپنی تقریر میں صرف پاکستانی وزیراعظم اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے امریکہ میں بیانات کا ذکر کیا اور اقوام متحدہ میں کسی دوسرے ملک کے سربراہ کی تقریر کا اشارہ تک نہیں کیا۔

یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان کتنی بد اعتمادی موجود ہے۔ افغان نائب وزیر خارجہ کے بيان پر طالبان حکومت کی خاموشی کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یہ طالبان کی اسلامی امارت کا موقف ہے۔

پاکستان اکثر افغان رہنماؤں کے بیانات پر خاموشی اختیار کرتا ہے لیکن ستانکزئی کے بیان کی شدت شاید اسلام آباد میں کچھ زیادہ ہی محسوس کی گئی اور وزارت خارجہ کے ترجمان 30 ستمبر کی ہفتہ وار بریفنگ میں تفصیلی جواب دینے پر مجبور ہو گئے۔

شیر عباس ستانکزئی کا پاکستان سے متعلق لہجہ اتنا سخت تھا جو شاید ہی کسی اور طالبان رہنما نے کبھی استعمال کیا ہو۔ طالبان رہنما کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’پاکستان کو کوئی دوست اور اسلامی ملک پیسے نہیں دیتا، ان کے فون کوئی نہیں سنتا تو اب پاکستانی رہنما افغانستان کے نام پر پیسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

افغان نائب وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس پاکستانی کردار سے متعلق بہت شواہد اور ثبوت موجود ہیں اور وقت آنے پر ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ پاکستان کے لیے ستانکزئی کا بیان پریشانی کا باعث ضرور ہو گا کیونکہ ایک پبلک فورم اور طالبان کے بہت سے رہنماؤں کی موجودگی میں اس طرح کے بیان کی شاید پاکستان میں توقع نہیں جا سکتی تھی۔

اگر وزیراعظم شہباز شریف ایک بین الاقوامی فورم پر افغانستان میں شدت پسند گروپوں کی موجودگی کا ذکر کریں تو طالبان حکومت کا سخت ردعمل فطری ہو گا۔ طالبان حکومت کے اس طرح کے بیانات اور پھر پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے بیانات پر حساسیت زیادہ ہے جس کا اظہار نائب وزیر خارجہ نے نسبتاً سخت الفاظ میں کیا ہے۔

معاملہ صرف شہباز شریف کی تقریر کا نہیں بلکہ حالیہ کئی دیگر معاملات نے بھی تعلقات میں کسی حد تک بگاڑ پیدا کیا ہے۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک تھا جس نے القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو مارنے کے لیے کابل کے ایک گھر پر امریکی ڈرون حملے کی کسی حد تک حمایت کی۔ جس حملے کی طالبان مذمت کریں اور پاکستان حمایت کرے تو ان حالات میں طالبان حکومت اور اسلام آباد کے درمیان بد اعتمادی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟

پاکستان نے افغان وزیر دفاع ملا یعقوب کے اس بیان کی تردید نہیں کی ہے کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، بلکہ طالبان کو ان کا اپنا وعدہ یاد دلایا کہ غیر ملکی شدت پسند گروپوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کابل پر گذشتہ سال اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد پانچ مرتبہ افغانستان جانے کے دوران محسوس کیا گیا کہ طالبان رہنماؤں کا پاکستان پر اعتماد کا فقدان ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے لیکن پاکستان میں شاید ہی اس کا ادراک اور احساس ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام اباد میں افغان امور سے متعلق پاکستانی ذمہ داران اعلیٰ حکومتی رہنماؤں کو ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دیتے ہیں لیکن یہ لوگ بھی زمینی حقائق کو نظر انداز ہی کرتے ہیں۔

کابل پر 31 جولائی کو ڈرون حملے کے بعد پیدا ہونے والی بداعتمادی کے بعد پاکستان کا کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق طالبان حکومت کو لکھا گیا خط مبینہ طور پر میڈیا میں لیک کرنے پر طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسعود اظہر تو پاکستانی اداروں کے زیر سرپرستی پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔ طالبان رہنماؤں کا خیال تھا کہ پاکستان مسعود اظہر کی افغانستان میں موجودگی کا کہہ کر بین الاقوامی دباؤ ہٹانا چاہتا ہے اور درحقیقت طالبان حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔‘

اب جبکہ کابل میں پاکستانی سفیر نہ ہونے کی وجہ سے سفارتی نمائندگی کم ہو گئی ہے، پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ نامزد ناظم الامورعبید الرحمٰن نظامانی کو جلد از جلد کابل بھیجا جائے تاکہ رابطوں کا سلسلہ بحال ہو جائے جو کہ اگست میں سفیر منصور خان کی سفارتی ذمہ داریاں پوری ہونے کے بعد کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔

وزارت خارجہ میں یورپ ڈیسک کے سربراہ کو افغانستان کے لیے ناظم الامور مقرر کیا گیا ہے کیونکہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے سفیر کی تقرری نہیں کی جا سکتی۔

ناظم الامور کابل جانے سے پہلے اسلام اباد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور کئی دیگر وزرا سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

اسلام اباد میں سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری یا وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کو کابل بھیجنے کے لیے مشورے ہو رہے ہیں تاکہ کشیدگی کے خاتمے میں مدد مل سکے۔ 

ذرائع کے مطابق مجوزہ دورے کے لیے افغان حکام کے جواب کا انتظار ہے۔ اگرچہ مجوزہ دورہ ایک لحاظ سے کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس مقصد کا حصول اتنا آسان نہیں۔

پاکستان اگر روزانہ بین الاقوامی برادری سے طالبان حکومت کے ساتھ رابطوں کی بات کرتا ہے تو خود بھی سوچ لے کہ کابل میں ہر حکومت کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کیوں رہتا ہے؟ پاکستان میں جب تک افغان معاملات پر سویلین قیادت اور پارلیمنٹ کا کنٹرول نہیں ہوتا تو تعلقات میں بہتری کا سوچنا بھی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر