کیا ورلڈ کپ سے پہلے سہ فریقی سیریز فائدہ مند ہو گی؟

پاکستان، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے لیے یہ سیریز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تیاریوں کے ضمن میں تو ایک اہم موقع ہے لیکن جس طرح خاموشی سے یہ سیریز ہو رہی ہے، اس سے سنجیدگی کا عنصر کم دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے کپتان نیوزی لینڈ میں سات اکتوبر سے شروع ہونے والی سہ فریقی سیریز سے قبل ٹرافی کے ساتھ پوز دیتے ہوئے (فوٹو: پی سی بی آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پاکستان ٹیم انگلینڈ سے سیریز ہار کر نیوزی لینڈ پہنچ چکی ہے جہاں وہ سہ فریقی ٹورنامنٹ میں حصہ لے گی۔

ٹورنامنٹ میں میزبان نیوزی لینڈ کے علاوہ بنگلہ دیش تیسرا فریق ہے۔ 

اکتوبر کے وسط سے آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے، جس میں پاکستان کا پہلا میچ روایتی حریف انڈیا کے ساتھ 23 اکتوبر کو میلبرن میں ہو گا۔

پاکستان نے دورہ نیوزی لینڈ اور ورلڈ کپ کے لیے وہی ٹیم برقرار رکھی ہے جو انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کھیل رہی تھی تاہم عامر جمال اور ابرار احمد کو ڈراپ کردیا گیا ہے جب کہ شاہنواز دہانی اور محمد حارث ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی ٹیم کے ساتھ سفر کریں گے اور سیریز میں دستیاب ہوں گے۔

پاکستان کے لیے سب سے اہم اضافہ شاہین شاہ آفریدی کا ہوگا جو ان دنوں انگلینڈ میں اپنا علاج کروا رہے ہیں اور نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا میں ٹیم میں شامل ہوجائیں گے۔

ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ کب شامل ہوں گے لیکن خبر یہ ہے کہ وہ جزوی طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں اور ہلکی پھلکی ٹریننگ شروع کردی ہے۔

پاکستان کے لیے فکر کی بات یہ ہے کہ میگا ایونٹ سے قبل ٹیم کی بیٹنگ اور فیلڈنگ تنزلی کا شکار ہے۔ 

انگلینڈ کے خلاف آخری میچ میں بیٹنگ نے جو کارکردگی دکھائی اس نے بورڈ چیئرمین رمیز راجہ کو بھی متفکر کردیا ہے۔ 

بابر اعظم اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کے بعد بیٹنگ ایک دم دفاعی موڈ میں چلی گئی تھی۔ کسی بھی بلے باز نے رنز کی رفتار تیز کرنے یا ہدف کا تعاقب کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اسی طرح فیلڈنگ میں کچھ ایسی غلطیاں کی گئیں جن سے مخالف بلے باز کو رنز بنانے کے مواقع میسر آ گئے۔ پاکستان کی فیلڈنگ ابھی تک اس معیار تک نہیں پہنچی ہے جیسے آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی ہے۔

پاکستان کے پاس ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ سہ فریقی سیریز آخری موقع ہے کہ اپنی خامیوں کو دور کر لیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر بیٹنگ ہے، جس میں اعتماد کی کمی بھی ہے اور تیزی سے رنز نہ بنانے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ 

اس کمزوری نے اوپنرز پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ مڈل آرڈر کی ناکامی کے باعث دونوں اوپنرز اپنی وکٹ بچانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور رنز بنانے کی بھی !

جس میچ میں یہ دونوں اوپنر بلے باز رنز نہ کرسکے، وہ پاکستان کی ناکامی پر منتج ہوتا ہے۔

پاکستانی ٹیم مینیجمنٹ اور سیلیکٹرز نے بیٹنگ کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے اور روایتی انداز میں ان آؤٹ کا انداز اپنا رکھا ہے۔ چند مخصوص کھلاڑی ہیں جو ایک میچ کھیلتے ہیں اور دوسرے میں کسی اور کو جگہ دے دیتے ہیں۔

پاکستانی سیلیکٹرز کو ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کھلاڑی نظر نہیں آتے۔ عوامی دباؤ پر چند ایک کو شامل تو کرتے ہیں لیکن موقع نہیں دیتے۔

ابرار احمد اس منفی طرز عمل کی ایک مثال ہیں۔ اگر ابرار احمد کو انگیلنڈ کے خلاف کھلایا جاتا تو شاید پاکستان کو بیک اپ مل جاتا۔

مذکورہ سہ فریقی ٹورنامنٹ کرائسٹ چرچ میں کھیلا جائے گا جہاں تینوں ٹیمیں دو دفعہ آمنے سامنے آئیں گی۔ ٹورنامنٹ سات اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے اور فائنل 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔

پاکستان آخری دفعہ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شارجہ میں کھیلا تھا، جو حارث رؤف کی شاندار بولنگ کے سبب آسانی جیت لیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پاکستان آخری دفعہ دسمبر 2020 میں نیپئیر میں کھیلا تھا، جو محمد رضوان کی عمدہ بیٹنگ کی مدد سےجیت لیا تھا لیکن تین میچوں کی سیریز ہار گیا تھا۔

سہ فریقی ٹورنامنٹ میں صرف پاکستان اپنی مڈل آرڈر بیٹنگ کو منظم نہیں کرنا چاہتا بلکہ میزبان نیوزی لینڈ بھی اپنی فائنل الیون کو ترتیب دینے میں تذبذب کا شکار ہے۔ مارٹن گپتل کے ساتھ اوپنر کا مسئلہ بھی حل طلب ہے۔ نیدر لینڈ اور آئر لینڈ کے خلاف سیریز میں فن ایلن اوپننگ کرتے رہے لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈیون کونوے نے اوپننگ کی اور ملی جلی کارکردگی رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیویز مڈل آرڈر میں ایک جارحانہ بلے باز کی سخت کمی ہے۔ کپتان کین ولیمسن اور ڈیرل مچل اچھی بیٹنگ کر رہے ہیں لیکن اینڈرسن کی طرح کا کوئی جارحانہ بلے بازموجود نہیں ہے۔

بولنگ میں ٹرینٹ بولٹ کی شرکت مشکوک ہے جب کہ ساؤتھی کی بولنگ میں بھی اب وہ کاٹ نہیں رہی ہے۔

ایڈم ملنے اور سانٹنر ہی نمایاں بولر ہوں گے جب کہ سودھی اور جیمس نیشم ان کی مدد کے لیے ہوں گے۔ سودھی نے گذشتہ ورلڈکپ میں ٹیم کو فائنل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

بنگلہ دیش کی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی  ہے۔ اس نے گذشتہ چھ ماہ میں کسی مضبوط ٹیم سے سیریز نہیں کھیلی ہے۔ ایک سیریز زمبابوے سے کھیلی اور ایشیا کپ کے میچز کھیلے جن میں افغانستان اور سری لنکا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کپتان شکیب الحسن اس سیریز میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے وکٹ کیپر نورالحسن قیادت کر رہے ہیں۔  بنگلہ دیش کی بیٹنگ کے مقابلے میں بولنگ بہتر ہے۔ تسکین احمد، مہدی حسن اور مستفیض الرحمٰن کرائسٹ چرچ میں بلے بازوں کو پریشان کرسکتے ہیں لیکن بیٹنگ میں کافی خلا ہے۔

تینوں ٹیموں کے لیے یہ سیریز تیاریوں کے ضمن میں تو ایک اہم موقع ہے لیکن جس طرح خاموشی سے یہ سیریز ہو رہی ہے، اس سے سنجیدگی کا عنصر کم دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے تینوں ٹیمیں اپنے اہم کھلاڑیوں کو آرام کروائیں تاکہ میگا ایونٹ سے پہلے کسی انجری کا خدشہ نہ رہے۔

پاکستان کے لیے یہ سیریز ایک اہم موقع ہے کہ اپنی مڈل آرڈر کی مرمت کرسکیں۔ اگر بلے باز رنز کرتے ہیں تو ان میں اعتماد آئے گا اور حوصلہ بڑھے گا۔

کرائسٹ چرچ کا موسم سرد اور ابر آلود ہے۔ بارش کی بھی پیش گوئی ہے اس لیے یہ سیریز اپنے نتائج سے زیادہ اپنی قوت کو مجتمع کرنے پر مرکوز ہو گی۔

پاکستانی ٹیم مینیجمنٹ کی کوشش ہو گی کہ اپنے اہم کھلاڑیوں کو اس سرد موسم میں کسی انجری سے بچائے، تاہم کمزور پہلوؤں پرتوجہ دینا مناسب ہو گا تاکہ ورلڈ کپ کا آغاز مناسب طریقے سے کیا جا سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ