آزادی مارچ: ریاست کیا چاہتی ہے؟

عمران خان کا فیصلہ تو سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کا فیصلہ کیا ہے؟ ریاست کیا چاہتی ہے؟

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان ایک بار پھر سے اسلام آباد کی جانب مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم تاحال انہوں نے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے (اے ایف پی)

عمران خان نے کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا۔ اپنی فرد عمل سے انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک کھلاڑی ہیں، سائفر سے معیشت تک اور جمہوریت سے پارلیمان تک، جو چیز دسترس میں آئے وہ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے انتخابی نشان کو ہاتھ میں تھام کر انہوں نے ہر شے کو گیند سمجھ رکھا ہے۔

یہ سوال اب معنویت کھو چکا کہ عمران خان کیا چاہتے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ ریاست کیا چاہتی ہے؟

ایک وقت تھا جب حیرت بھی ہوتی تھی اور سوال بھی اٹھتا تھا کہ عمران خان کیا کر رہے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ یہ خوش گمانی اور حیرت سونامی میں بہہ گئیں۔عمران خان اب ایک کھلی کتاب ہیں۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی سن بھی سکتے ہیں 

سیاست میں تضادات بھی ہوتے ہیں اور بہت شدید بھی، لیکن عمران خان کا معاملہ اور ہے۔ اس کھیل میں وہ کسی اصول اور کسی قاعدے کے قائل نہیں۔ ان کا اصرار ہے وہ کلین بولڈ ہو جائیں تو اسے چھکا قرار دیا جائے اور ایل بی ڈبلیو ہو جائیں تو اسے چوکا لکھا جائے۔ وہ غلطیاں کریں تو کرامات سمجھی جائیں اور وہ کھیلن کو چاند مانگیں تو ساتھ ستارے بھی توڑ کر ان کی راہوں میں بچھا دیے جائیں۔

کسی قانون کی انہیں پرواہ نہیں، کوئی ضابطہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا، آئینی مبادیات سے بھی وہ بے نیاز ہیں۔ ان کا مزاج جمہوری ہے نہ ان کا رویہ۔ ان کے نزدیک ان کی ذات ہی معیار ہے۔ اب ملک کا ہر ادارہ اور ہر ضابطہ تب ہی سرخرو ہو سکتا ہے جب ان کے معیار پر پورا اترے۔

ریاست کا قانون اور اس کے ادارے اگر عمران خان کو اقتدار تک پہنچانے کا وسیلہ بنتے ہیں تو مرحبا، نہیں بنتے تو ان کے لیے کوئی امان نہیں۔

کسی کو میر جعفر سے ملا دیا، حزب اختلاف ویسے ہی ’چور‘ ہے، چیف الیکشن کمشنر کو سر عام گالیاں دی جاتی ہیں، سائفر کا ’جھوٹ‘ تراش کر امور خارجہ کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔

نہ ملکی قانون کی پرواہ ہے، نہ اس کی سفارت کاری کا خیال ہے نہ اس کی معاشی نزاکتوں کا۔ ایک ہی ترجیح  ہے کہ وہ کسی طرح پھر سے اقتدار میں پہنچ جائیں۔

یہ رویہ جمہوری نہیں، معاف کیجیے، اسے فاشزم کہتے ہیں۔ زبان حال سے وہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگر اس ملک کے عوام انہیں ایک بار پھر اقتدار تک نہیں پہنچاتے تو انہوں نے کسی کو سکھ کا سانس نہیں لینے دینا۔ ہر معاملے کی وہی شرح حرف آخر ہے جو وہ خود بیان کرتے ہیں۔

چنانچہ عدم اعتماد کو بھی اگر وہ امریکی سازش قرار دیں تو لازم ہے اسے سازش سمجھا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقتدار میں تھے تب بھی انہیں کسی مخالف کا وجود گوارا نہ تھا، اقتدار سے نکالے گئے تو انہیں ایوان میں بیٹھنا تک گوارا نہیں۔ جب سے سیاست میں متحرک ہوئے ہیں، انہیں قرار نہیں۔ کبھی دھرنا ہے، کبھی مارچ ہے، کبھی لانگ مارچ ہے، کبھی آزادی مارچ ہے اور اب حقیقی آزادی مارچ کا دعویٰ ہے۔

بچے ان کی ملک سے باہر ہیں اور معیشت ان کی مستحکم ہے۔ انہیں اس نزاکت کا کوئی احساس ہی نہیں کہ معاشرے میں ہمہ وقت سیاسی تناؤ کی معاشی قیمت کتنی خوفناک ہوتی ہے جو ملک اور عوام کو دینا پڑتی ہے۔

فرض کریں فوری الیکشن کروا دیے جاتے ہیں، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ جیت نہ پائے تو انتخاب کو ایک بار پھر ’یہودو ہنود‘ کی سازش قرار دے کر وہ سڑکوں پر نہیں ہوں گے۔

ان کا طرز عمل بتا رہا ہے کہ اس ملک کے لیے امان کی ایک ہی صورت ہے کہ اقتدار پر صرف عمران خان کا حق تسلیم کر لیا جائے۔ وہ ہار جائیں تو پینتیس پنکچر کے الزام کو پرچم بنا لیتے ہیں، اور عدم اعتماد کا شکار ہو جائیں تو یہ امریکی سازش بن جاتی ہے۔

اسلاام آباد میں اس وقت خوف کی فضا ہے۔ ہر طرف کنٹینر پڑے ہیں۔ پورا ملک ایک شخص کی افتاد طبع کے رحم و کرم پر ہے۔ فرد واحد نے سارے معاشرے کی کمر لال اور ہری کر دی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے کہ مارچ کب نکلے گا اور کس حکمت عملی کے تحت نکلے گا۔ وہ خود کہہ چکے کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کو بھی، جو وائس چیئرمین ہیں، اس بارے میں کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ سوال یہ ہے کیا سیاسی جماعتوں میں فیصلے اس طرح ہوتے ہیں؟

معاشی مشکلات کا شکار ایک نیشن سٹیٹ یہ تماشا کب تک برداشت کرے گی کہ ہر چند ماہ بعد کوئی لشکر اسلام آباد کا رخ کر رہا ہو، شہر بند ہو جائے، سڑکوں پر خوف کا عالم ہو،  چوراہوں میں کنٹینر رکھے ہوں، معیشت مفلوج ہو جائے، شہری زندگی محصور ہو کر رہ جائے؟ 

اس ملک کے شہریوں سے کون سی غلطی ہوئی ہے کہ ہیجان ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ ریاست کب تک کسی کو جارج آرول کے اینیمل فارم کا More Equal  سمجھ کر اس کی ناز برداریاں کرتی رہے گی؟

عمران خان کا فیصلہ تو سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کا فیصلہ کیا ہے؟ ریاست کیا چاہتی ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر