کراچی کی 150 سالہ پرانی بوتل گلی میں اب پرفیوم کے چرچے

کراچی کے علاقے لائٹ ہاؤس کے قریب واقع یہ گلی شیشے کی استعمال شدہ بوتلوں کے لیے مشہور تھی لیکن اب یہ اپنی پہچان کھوتی جا رہی ہے۔

کراچی میں جہاں برطانوی دور میں تعمیر کی جانے والی کئی عمارتیں اپنی اصلی حالت کھو چکی ہیں، وہیں اس دور کی 150 سالہ پرانی بوتل گلی بھی ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے۔

بوتل گلی کراچی کے علاقے لائٹ ہاؤس کے قریب واقع ہے، جہاں تقسیم سے پہلے ہندو، سکھ اور پارسی رہتے تھے اور یہاں شیشے کی استعمال شدہ بوتلوں کا کاروبار کیا جاتا تھا۔

جب انڈیا اور پاکستان کی تقسیم ہوئی تو ہندو دکاندار انڈیا چلے گئے اور وہاں سے آنے والے افراد نے یہاں بوتل کا کاروبار شروع کیا۔

اس گلی میں دکان چلانے والے اور چار نسلوں سے بوتل کے کاروبار سے منسلک محمد یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے دادا بمبئی (ممبئی کا پرانا نام) میں بوتلوں کی دکان چلاتے تھے اور تقسیم کے بعد ان کے والد اور کچھ خاندان کے لوگ یہاں کراچی آکر بس گئے۔ بعدازاں ان کے والد نے پاکستان بوتل کے نام سے بوتلوں کی دکان کھولی جس کی دیکھ بھال اب وہ خود کرتے ہیں جبکہ ان کے کزن کی بوتلوں کی دکانیں آج بھی ممبئی میں موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد یوسف کے مطابق: ’اب پلاسٹک کی بوتلیں آنے کی وجہ سے شیشے کی بوتلوں کی دکانیں اس بوتل گلی میں ایک دو ہی رہ گئی ہیں اور باقی بوتلوں کی دکانوں کی جگہ اب پرفیوم وغیرہ کی دکانوں نے لے لی ہے۔‘

محمد یوسف نے مزید بتایا: ’تقسیم سے قبل اس گلی میں پہلے ہندو اور پارسی رہتے تھے۔ پہلے اس گلی کو پارسی گلی، نارائن ولجی گلی بھی کہا جاتا تھا جبکہ تقیسم ہندوستان کے بعد اس بوتل گلی کو سرائے کوارٹر کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا۔‘

محمد یوسف کے مطابق ’ان استعمال شدہ شیشے کی بوتلوں کے کاروبار سے درجنوں خاندانوں کا گھر چلتا تھا۔ جو لوکل فارما، بیوریج کمپنیاں اور فوڈ والے بڑی بڑی گلاس فیکٹریوں سے بوتلیں نہیں خرید سکتے تھے، وہ یہاں اس بوتل گلی کا رخ کرتے تھے لیکن حکومت کی عدم دلچسپی اور پالیسیوں کی وجہ سے یہ کام زوال پذیر ہوگیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا