پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ چین کو واجب الادا تقریباً 27 ارب ڈالر کے نان پیرس کلب قرضے کو ری شیڈول کروانے کی کوشش کریں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ قرضے کے ابتدائی حجم میں کمی کی رعایت نہیں مانگی جائے گی۔
واشنگٹن میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو جمعے کو دیے گئے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قرضوں کی ادائیگی میں پاکستان کے نادہندہ ہونے، دسمبر میں میچیور ہونے والے بانڈز کی میچیورٹی میں توسیع اور پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرام پر دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا۔
پاکستانی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کثیر جہتی ترقیاتی بینک اور عالمی ڈونرز پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ’خاصی لچک‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق تباہ کن سیلاب کے بعد تقریباً 32 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان میں سے بعض ضروریات پہلے سے منظور شدہ نرم شرائط والے قرضوں کے فنڈز کو دوبارہ مختص کر کے پوری کی جا سکتی ہیں۔
اسحاق ڈار جو وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے دو ہفتے بعد آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام دو طرفہ قرض دہندگان کے ساتھ مساوی شرائط پر ری سٹرکچرنگ کی کوشش کرے گا۔
جب ان سے سوال کیا کہ گیا کہ آیا ان کے خیال میں تقریباً 23 ارب ڈالر کا قرضہ دینے والے ملک چین کو مذاکرات میں شرکت پر قائل کرنا مشکل ہو گا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان قرضے کا ابتدائی حجم کم کروانے کی کوشش کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ’ری شیڈولنگ ٹھیک ہے لیکن ہم قرضے کے حجم میں رعایت نہیں چاہتے۔ یہ درست نہیں ہے۔‘
روپے کا دفاع
اسحاق ڈار تین بار پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ وہ آخری مرتبہ 2013 سے 2017 تک وزیر خزانہ رہے۔ انہیں روپے کے بھرپور دفاع کرنے والے وزیر خزانہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے روپے کے معاملے میں عملی مداخلت نہیں کی۔ روپے کی قدر میں اس سال ڈالر کے مقابلے میں بڑی کمی ہوئی لیکن اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ مقرر کیے جانے کے بعد سے اس کی قیمت میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ان کی رائے میں روپے کی ’اصلی قیمت‘ دو سو روپے سے کم ہے۔ آخری بار ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 219 کا تھا۔
اسحاق ڈار کے بقول: ’میں مستحکم کرنسی چاہتا ہوں۔ میں حقیقت پر مبنی شرح چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ روپے کی قدر مارکیٹ کی بنیاد پر ہو لیکن یہ نہیں چاہتا کہ اسے یرغمال بنا لیا جائے اور قیاس آرائی کرنے والے اربوں ڈالر کما لیں۔‘
قرضہ حاصل کرنے کے امکانات
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے درمیانی آمدن والی ملکوں کے لیے آئی ایم ایف کی نئی سہولت ’ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی ٹرسٹ‘ کے تحت قرضہ لینے کے امکان کے حوالے سے فنڈ کے حکام کے ساتھ بات کی ہے؟ تو اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’ہم نے تمام امکانات پر بات چیت کی ہے۔‘
پاکستانی وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ’فوڈ شاک‘ کے پیش نظر قرضے کی نئی سہولت پاکستان کے مفاد میں اچھی ثابت ہو سکتی ہے۔
تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پاکستان فصلوں سے محروم ہو چکا ہے اور اگلے سال اپنی ضرورت کا نصف تک پورا کرنے کے لیے لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ ہم اس سہولت تک رسائی حاصل کریں۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وزیر خزانہ نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کو تباہ کن سیلاب سے نکلنے میں ’تقریباً تین سال‘ لگ سکتے ہیں، جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 7.9 ملین بے گھر ہوئے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعے کو اے پی سے گفتگو میں کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 32 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کی لاگت 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔