پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر، ملک کو کیا فائدہ ہو گا؟

پیرس میں ہونے والے فیٹف کے رواں اجلاس میں پاکستان کو ’مثبت پیش رفت‘ دکھانے پر گرے لسٹ میں سے نکال دیا گیا ہے۔

پیرس میں فیٹف کے اجلاس کے دوران لی گئی تصویر (فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس)

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے جمعے کو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے اقدامات پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے جو خوش آئند ہے۔ 
فیٹف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 34 نکاتی پلان کو ڈیڈ لائن سے پہلے مکمل کیا ہے، اسی وجہ سے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالا جا رہا ہے اور پاکستان ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مل کے اپنے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے نظام کو مزید بہتر کرتا رہے گا۔
فیٹف نے کہا کہ اسی وجہ سے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالا جا رہا ہے اور پاکستان ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مل کے اپنے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے نظام کو مزید بہتر کرتا رہے گا۔

سنگاپور سے تعلق رکھنے والے فیٹف کے سربراہ ٹی راجہ کمار نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ فیٹف کی ٹیم نے پاکستان کے دورے میں پاکستان کی جانب سے کی گئی اصلاحات کی تصدیق کی ہے۔ ٹی راجا کمار کا کہنا تھا پاکستان میں اس وقت نے اصلاحات کو برقرار رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فیٹف سے نکلنے پر ملک کی سویلین اور فوجی قیادت اور اداروں کو مبارک باد پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سالہاسال کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

راجہ کمار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں 206 اراکین نے شرکت کی۔ ان اراکین میں مختلف ممالک کے علاوہ ئی ایم ایف، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور انٹرپول جیسی مبصر تنظمیں بھی شامل تھیں۔ 

رواں سال جون میں ہونے والے گذشتہ اجلاس میں فیٹف کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان نے 34 نکات پر مشتمل دو ایکشن پلان پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے جس کے بعد جائزہ ٹیموں کو پاکستان بھیجا جائے گا تاکہ پاکستان کی جانب سے لیے گئے اقدامات کی تصدیق کی جا سکے۔

فیٹف کی تکنیکی ٹیم کا دورہ پاکستان

14 ستمبر کو پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیٹف کی تکنیکی ٹیم نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ مکمل کیا ہے جس میں ان کی متعلقہ ایجنسیوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نقطہ نظر سے یہ ایک ہموار اور کامیاب دورہ تھا۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق ’فیٹف ٹیم کے ساتھ ملاقاتیں تعمیری اور مثبت ماحول میں ہوئیں۔۔۔ پاکستان جاری جائزہ طریقہ کار کے جلد منطقی انجام کا منتظر ہے۔‘

گرے لسٹ سے نکلنے سے کیا فائدہ ہو گا؟

فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔

کسی ملک کے فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کے مطلب ہے کہ فیٹف کی جانب سے مالی نظام میں کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کو دور کرنے کے لیے ایک ملک آمادہ ہوتا ہے۔ 

پاکستانی تھنک ٹینک تبادلیب کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو حالیہ گرے لسٹنگ اور ماضی میں دو دفعہ (2008-09 اور 2012-15) رہنے سے 38 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ 

تبادلیب کے مضمون کے مطابق گرے لسٹنگ سے ملکی معیشت کے حوالے سے تاثر پر منفی اثرات پڑتے ہیں جس سے مقامی سرمایہ کاری، برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ جب پاکستان 2009 اور 2015 میں گرے لسٹ سے نکلا تو اس کے بعد بھی اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر موجود رہے اور پاکستان کو سنبھلنے کے لیے ایک سال تک کے وقت کی ضرورت ہے۔

تبادلیب کی تحقیق سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر آج پاکستان گرے لسٹ سے نکلتا ہے تو فوری طور پر پاکستانی معیشت پر اس کے اثرات شاید واضح نہ ہوں مگر ایک دو سال میں اس کے مثبت اثرات سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔

آئی ایم ایف کے حالیہ مذاکرات میں فیٹف کے قواعد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دی گئی شرائط کے مطابق پاکستان کو ان اقدامات کو مارچ 2022 تک مکمل کرنا تھا جن کے ذریعے ’انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے فریم ورک کو موثر بنایا جائے‘ تاکہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر نکل سکے۔

گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان آئی ایم ایف کے پاکستان کے نظام کے حوالے سے شرائط میں سے ایک شرط دیر سے ہی صحیح مگر مکمل کر لے گا۔

اس کے علاوہ فیٹف گرے لسٹنگ کے بعد سے پاکستان کے بینکاری نظام میں جانچ پڑتال بڑھ گئی تھی جس سے کاروبار کرنا یا ٹرانزیکشنز کرنا مہنگا ہو گیا تھا۔ فیٹف اصلاحات کے نتیجے میں اس جانچ پڑتال میں اضافہ ہوا تھا مگر گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد توقع ہے کہ شہریوں اور کاروباری افراد کو بینکنگ ٹرانزیکشنز میں اس کڑی جانچ سے نہیں گزرنا پڑے گا جو ابھی ہو رہی ہے۔

اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے افراد کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ وہ ملک پہنچ کر کرنسی ڈیکلیئر کریں۔ اس شرط کا حالیہ دنوں میں کڑے طریقے سے نفاذ کیا گیا مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ کڑی نگرانی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد بھی جاری رہی گی؟

عالمی طاقتوں اور اداروں کی شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی دیکھیں تو پاکستان نے جن 34 نکات میں اصلاحات اور قانون سازی کی ہیں وہ پاکستان کے نظام میں سقم تھے اور اسی گرے لسٹ کے بہانے یہ سقم دور ہو گئے ہیں۔ یہ اصلاحات کتنی پائیدار ہیں، ان کا فیصلہ آج فیٹف کرے گا۔

پاکستان پرامید کیوں ہے؟

فیٹف کی جانب سے پاکستان کو 34 نکات پر مشتمل دو پلان دیے گئے تھے جن کی تکمیل کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالے جانے کا فیصلہ کیا جانا تھا۔

تاہم پاکستانی حکام فیٹف کی تکنیکی ٹیم کے دورے کے بعد پرامید نظر آتے ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق ’فیٹف کے طے شدہ قواعد پر۔۔۔پاکستان کا شمار اب بہترین تعمیل کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔‘

پاکستانی حکام کے امید کے علاوہ خطے کی صورت حال کے پیش نظر بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ نرم رویا رکھا جائے گا۔

اس وقت پاکستان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات حالیہ ماضی کی مناسبت سے قدرے بہتر ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بھی ایک خوش آئند پیش رفت تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سیلاب کی جانب سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات کے باعث بھی فیٹف کے لیے مشکل ہو گا کہ پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھے۔

پاکستان کو کب گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو کہ مختلف ممالک کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ جیسے اقدامات پر نظر رکھتا ہے۔

جون 2018 میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا اور 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا تھا۔

بعد ازاں ان 27 نکاتی پلان کے بعد پاکستان کو ایک اور پلان بھی دیا گیا تھا جن میں 7 نکات پر پاکستان نے عمل در آمد کرنا ہے۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔
 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت