عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں ہمارے لیے سبق

یہ فیصلہ ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے کیوں قونصلر رسائی سے انکار کیا جس کی وجہ سے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف تک پہنچا اور ہمارے لیے بین الاقوامی سبکی کا باعث بنا۔

بھارت کی کوشش ہوگی کہ کلبھوشن کو بہترین قانون دانوں کی ٹیم دستیاب ہو اور وہ ہر دستاویز اور گواہ پر سخت جرح کریں گے۔ وہ ان  میں شک و شبے کا عنصر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ مرحلہ ہمارے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔(اے ایف پی)

پاکستان اور بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو اپنی اپنی جیت تصور کر رہے ہیں۔ بھارت قونصلر رسائی کے فیصلے کی خوشی منا رہا ہے اور ہم سزا کی بحالی کو اپنی فتح تصور کر رہے ہیں۔ سچ کہیں دونوں چیزوں کے بیچ میں چھپا ہوا ہے۔

یہ فیصلہ ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے کیوں قونصلر رسائی سے انکار کیا جس کی وجہ سے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف تک پہنچا اور ہمارے لیے بین الاقوامی سبکی کا باعث بنا؟
عالمی عدالت نے اپنے فیصلے تقریبا چار مرتبہ زور دے کر کہا کہ پاکستان نے ویانا معاہدہ برائے قونصلر تعلقات کی خلاف ورزی کی اور ہمارے قونصلر رسائی نہ دینے کے فیصلے کو رد کیا۔ اس عدالتی مذمت نے ہمارے بین الاقوامی تاثر کو کافی نقصان پہنچایا۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں بھارت کی واضح کامیابی تھی۔

بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا کسی بھی ملک کے لیے سود مند نہیں ہوتا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی تعلقات میں نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کا راستہ بھی روکتا ہے۔

ان منفی اثرات کے برعکس ہمارے لیے اس فیصلے میں کافی مثبت پہلو بھی موجود ہیں جو کلبوشن کی سزا کے قائم رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوں گے۔ عالمی عدالت نے اس مقدمے میں پاکستان کی فوجی عدالت کی حیثیت اور اس کے فیصلے کو تسلیم کیا، نہ اس فیصلے کو ختم کیا اور نہ ہی کلبوشن کی رہائی یا اس کی بھارت واپسی کے بارے میں کوئی ہدایات جاری کیں۔ 

عدالت نے سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کلبھوشن کو پاکستانی قوانین کے مطابق فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جائے جو کہ پہلے سے کئی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے بارے میں باقی لوگوں کو بھی حاصل رہا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اپیل کے معاملے میں حکومت پاکستان کے لیے کافی قباحتیں ہو سکتی ہیں۔ ہمارے پاس یقیناً کافی مضبوط شواہد اور گواہ ہوں گے لیکن انہیں فوجی عدالت میں شاید کلبھوشن کی جانب سے سخت قانونی جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن اپیل کے دوران صورتحال مختلف ہو گی۔ بھارتی سفارت خانے کی کوشش ہوگی کہ کلبھوشن کو بہترین قانون دانوں کی ٹیم دستیاب ہو اور وہ ہر دستاویز اور گواہ پر سخت جرح کریں گے۔ وہ ان گواہوں اور دستاویزات میں شک و شبے کا عنصر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ مرحلہ ہمارے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس چھان بین اور جارحانہ جرح میں ہمارے بہت سارے خفیہ رابطوں کا راز بھی افشا ہو سکتا ہے جو کہ کسی بھی سراغ رساں ایجنسی کے لیے مفید نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس اپیل پر کارروائی بند کمرے میں بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ شاید ہمارے بین الاقوامی تاثر کے لیے بہتر نہ ہو اور بھارت کو ہمارے لیے مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے کا مزید موقع دے گا۔ ہمیں آگے بہت احتیاط سے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور پیشہ ور ماہروں کی خدمات حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اب ادارہ جاتی مفادات سے آگے چلا گیا ہے اور سب اداروں کو اس پر مل جل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

اس فیصلے میں ہمارے معروف سفارت کار عبدالباسط پاکستان کے لیے ایک نئی مثبت راہ دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ فیصلہ ہمارے لیے مسئلہ کشمیر میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں بھارت کا کافی عرصے سے یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد یہ مسئلہ صرف باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی۔

اس کے برعکس عالمی عدالت میں بھارت نے مختلف پوزیشن اختیار کی ہے اور پاکستان اور بھارت کے 2008 کے قونصلر رسائی کے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ باہمی معاہدے، بین الاقوامی معاہدوں کو متاثر نہیں کرسکتے۔ عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس رائے سے اتفاق کیا ہے۔ اس بھارتی قلابازی اور عالمی عدالت کے فیصلے کو ہم کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے پرزور طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اس سلسلے میں خصوصی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

کلبھوشن کے معاملے میں میں اس سے پہلے بھی ایک تجزیہ میں لکھ چکا ہوں کہ اس مسئلہ کے ساتھ صحیح طریقے سے نمٹا نہیں گیا اور میرے تجربے سے مجھے لگتا ہے کہ وزارت خارجہ کی رائے قونصلر رسائی نہ دینے کے فیصلے میں شامل نہیں تھی۔ وزارت خارجہ جس کی ان معاملات میں رائے ہمیشہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری پر مبنی ہوتی ہے یا تو اسے نظر انداز کر دیا گیا یا اس سے رائے لینے کی زحمت ہی نہیں محسوس کی گئی۔

اس قسم کی مزید بین الاقوامی شرمندگیوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو معاملات خارجہ تعلقات سے متعلق ہوں ان میں وزارت خارجہ کی رائے کو ترجیح دینی چاہئے اور اس کی رائے کی حتمی حیثیت ہونی چاہیے۔ پچھلے تقریبا 20 سالوں سے یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ مختلف اہم خارجہ معاملات میں وزارت خارجہ کو دوسری سطح کا کھلاڑی بنا دیا گیا ہے اور دفاعی ادارے ان اہم معاملات پر اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے لگے ہیں۔ ہم وزارت خارجہ جیسے اہم ادارے کو اس کا کام نہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

اگر خارجہ معاملات کے فیصلے غیر متعلقہ اداروں میں ہوتے رہے تو ہمیں عالمی عدالت انصاف کے موجودہ فیصلے جیسے کئی ناپسندیدہ امکانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس لیے یہ اشد ضروری ہے کہ وزارت خارجہ کی پیشہ وارانہ رائے کا احترام کیا جائے اور پیچیدہ بین الاقوامی مسئلوں میں اس کی رائے کی قدر کی جائے۔

وزارت خارجہ پچھلے کئی برسوں سے عدم توجہی کا شکار بنی رہی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت سارے تربیت کے مراحل ختم کر دیے گئے ہیں جس سے وزارت خارجہ کی معنی خیز مشورہ دینے کی قوت متاثر ہوئی ہے۔ چونکہ اہم مسائل میں وزارت خارجہ سے مشورے مانگے ہی نہیں جاتے اس لیے وزارت خارجہ نے بھی ان مسائل پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے۔ بہت سارے حساس معاملات میں وزارت خارجہ کے مشوروں کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے وزارت خارجہ میں ان معاملات پر  پراثر تجزیات میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔

وزارت خارجہ کی قیادت میں رضاکارانہ طور پر سیاسی اور عسکری قیادت کو مشورے دینے کی روایت بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں مشترکہ قصور وزارت خارجہ، سیاسی اور دفاعی قیادتوں کا ہے۔ وزارت خارجہ کو پوری طاقت سے اپنے وجود کا احساس دلانا چاہیے۔ اس میں ہمارے سیکرٹری خارجہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لیکن پچھلی دو دہائیوں کی وزارت خارجہ کی قیادت کی کارکردگی سے نہیں لگتا کہ وہ پاکستان کے خارجہ معاملات میں فیصلہ سازی کے عمل میں اپنے لیے کوئی قابل ذکر جگہ پیدا کر سکے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر