راولپنڈی میں قائم کشمیری کھانوں کا مرکز سمجھا جانے والا دلبر ہوٹل ان چند ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے جہاں کے لذیذ کھانے عوام میں ہی نہیں بلکہ خواص میں بھی مشہور ہیں۔ حتیٰ کہ ایک زمانے میں یہاں ’کشمیری مجاہدین‘ بھی آیا کرتے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ہوٹل کے مالک ملک اسلم سے گفتگو کی اور اس کی تاریخ کے بارے میں معلوم کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’دلبر ہوٹل 1947 کے آخر اور 1948 کے آغاز میں شروع کیا گیا تھا۔ اس ہوٹل کی بنیاد میرے والد صاحب نے رکھی تھی۔‘
ملک اسلم نے مزید بتایا: ’شروع میں ہمارے گھر کشمیری خانساماں ہوا کرتے تھے جو صرف اپنے گھر کے لیے کھانا بنایا کرتے تھے، پھر لوگوں نے کہا کہ اتنا اچھا کھانا خود کھاتے ہیں تو لوگوں میں بھی متعارف کروائیں۔‘
امریکہ، انگلینڈ تک جانے والی چائے
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1950 سے پہلے یہاں صرف چائے ملا کرتی تھی جو بہت مشہور تھی۔ ’یہ چائے امریکہ اور انگلینڈ تک جایا کرتی تھی۔ لوگ ہمارے ہوٹل کی چائے کے بہت شوقین تھے۔‘
بقول ملک اسلم: ’پھر 1950 میں کشمیری کھانا متعارف کروایا، اس کے بعد سے یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔‘
ہوٹل کا نام کس نے رکھا؟
ہوٹل کے مالک نے مزید بتایا کہ ’میرے والد بتایا کرتے تھے کہ شروع میں تو سب اسے کشمیری ہوٹل ہی کہتے تھے، مگر لاہور کے ایک گاہک تھے جو بہت آتے تھے۔ انہوں نے میرے والد سے کہا تھا کہ آپ اس ہوٹل کا نام ’دلبر‘ رکھیں۔
’جب میرے والد نے اس نام کے پیچھے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے کھانے بہت دل لبھانے والے ہیں، اس لیے آپ کے اس ہوٹل کا نام کشمیری ہوٹل کے بجائے دلبر ہونا چاہیے۔ وہاں سے پھر اس کا نام دلبر ہوٹل رکھا گیا۔‘
دلبر ہوٹل کا کھانا کس کس نے کھایا؟
ملک اسلم نے ہوٹل کی تاریخ کے بارے میں بتایا کہ ’میرے والد صاحب کے زمانے میں لیاقت علی خان بھی یہاں تشریف لائے تھے۔ 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب آئے۔ اس وقت میں چھوٹا تھا، طالب علم تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ان کے ساتھ وہ تمام لوگ تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی بنائی۔ ان میں حفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، غلام مصطفی جتوئی وغیرہ سب تھے جو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے لوگ تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بھٹو کو کھانا بہت پسند آیا۔ انہوں نے شاباش دی اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا کھانا کھلایا ہے۔‘
اس کے علاوہ جنرل ضیا الحق اور بے نظیر بھٹو بھی یہاں کھانا کھاتے رہے۔
بقول ملک اسلم: ’جب میاں (نواز شریف) صاحب وزیراعظم بنے تو ان کا کھانا میں خود بناتا تھا۔ اپنی پوری ٹیم لے کر جاتا تھا۔ میاں صاحب کشمیری ہیں تو وہ کھانے کے بہت شوقین ہیں۔‘
شہباز شریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملک اسلم نے بتایا کہ میاں شہباز شریف تو یہاں دلبر ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھا کر گئے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز مرحوم بھی یہاں تشریف لائی ہیں جب میاں صاحب وزیراعلیٰ تھے تو دونوں بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے ساتھ تشریف لائے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کے لیے بھی شیخ رشید احمد دو سے تین بار سپیشل کھانا یہاں سے لے کر گئے ہیں۔‘
کشمیریوں کا ’بیس کیمپ‘
ملک اسلم نے مزید کہا کہ ’دلبر ہوٹل میرے والد کے زمانے میں کشمیر کا بیس کیمپ تھا۔ سب کشمیری یہاں آتے تھے جس سے پتہ چلتا تھا کہ کون سا کشمیری پاکستان میں کون سے شہر میں رہ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’دلبر ہوٹل نے کشمیری جنگجوؤں کے لیے بھی اپنے دروازے کھلے رکھے۔ ایک بار میں سو لوگ آتے تھے اور ہم ان کے لیے فی سبیل اللہ کھانا بنواتے تھے۔ کوئی یاد کرے نہ کرے مگر یہاں مجاہدین ایک دروازے سے آتے تھے اور دوسرے سے نکل جاتے تھے۔‘
ملک اسلم نے بتایا کہ ’میرے بزرگوں کے زمانے میں کشمیر کی بڑی بڑی شخصیات یہاں آتی تھیں۔ یہ لوگ سیاست میں جذباتی ہوکر ٹیبل توڑتے تھے اور یہیں کشمیر فتح کرتے تھے۔
’ان کے دل میں جو ہوتا تھا وہ یہاں بیٹھ کر گلے شکوے دور کرتے تھے۔ سیاسی ماحول بھی ہوتا تھا، دوستانہ ماحول بھی ہوتا تھا۔ گرم سرد ماحول بھی ہوتا تھا، تو سب یہاں آکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے تھے اور دل کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔‘
نور جہاں کے گانے اور کشمیری کھانے
دلبر ہوٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ ’شیخ رشید نے لال حویلی میں ایک دعوت رکھی تھی۔ سی او پی اجلاس تھا جس میں انہوں نے کشمیری کھانے رکھے جو کہ ہمارے ہوٹل سے گئے تھے۔ تقریباً 300 شخصیات اس اجلاس میں شریک تھیں اور وہ شخصیات پاکستان کی نامی گرامی شخصیات تھیں، جس کے بعد ایک اخبار کی سرخی بہت مشہور ہوئی کہ نور جہاں کے گانے اور کشمیری کھانے۔ جو کہ ابھی تک سب کو یاد ہے۔‘
گشتابہ کے لیے تو لوگ پاگل ہیں!
ملک اسلم نے ہوٹل کی مشہور سوغات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے مشہور گشتابہ ہے جو لوگوں کے دماغوں پر بہت سوار ہے اور لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’گشتابہ بنانے کے لیے بکرے کی گرم گرم رانوں سے گوشت اتارا جاتا ہے اور اس کو پانی میں گلنے دیا جاتا۔ اس کے بعد اس بغیر ہڈی گوشت کو پتھر کی سلوں پر لکڑی کے ہتھوڑوں سے اس وقت تک کوٹا جاتا ہے جب تک اس کا آٹا نہ بن جائے۔
’پھر ہمارے اپنے کچھ مصالحے اور چکنائیاں اس کوٹے ہوئے گوشت میں ڈال کر میٹ بال (کوفتے) بنائے جاتے ہیں، جس کے بعد اسے یخنی میں پکایا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے لیے تقریباً دو یا تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں اور تیار ہو جانے کے بعد گشتابہ پھول کر نرم ہو جاتا ہے۔
’اتنا نرم کہ اگر اس کو چھری سے کاٹا جائے تو بالکل کیک کی طرح کٹ جاتا ہے۔‘