میانمار پر آسیان وزرائے خارجہ کا اجلاس، مگر میانمار شامل نہیں

ایشیائی ممالک کے وزرا خارجہ اس اجلاس میں اس لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ فوجی بغاوت کے شکار ملک میانمار میں تعطل کے شکار امن عمل کو کیسے شروع کیا جائے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان کا وزارتی اجلاس جمعرات سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں شروع ہو گیا (روئٹرز)

جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان کا وزارتی اجلاس جمعرات سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں شروع ہو گیا جس میں میانمار کے بحران پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس میں میانمار کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔

ایشیائی ممالک کے وزرا خارجہ اس اجلاس میں اس لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ فوجی بغاوت کے شکار ملک میانمار میں تعطل کے شکار امن عمل کو کیسے شروع کیا جائے، جہاں حالیہ ہفتوں میں تشدد کے بڑھتے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ جکارتہ میں قائم آسیان سیکرٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں تنظیم کے رکن ملک میانمار کا کوئی بھی نمائندہ شرکت نہیں کر رہا۔

میانمار کو گذشتہ سال سے آسیان کے اجلاسوں میں شرکت سے اس وقت روک دیا گیا تھا، جب فوج نے نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کر کے ملک میں مارشل لا لگا دیا تھا۔

اس دوران ہزاروں کارکنوں کو گرفتار اور مزاحمتی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔

حالیہ ہفتوں میں میانمار میں کچھ خونریز واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جن میں ملک کی سب سے بڑی جیل پر بمباری اور اتوار کو کاچن ریاست میں ایک فضائی حملہ بھی شامل ہے جہاں مقامی میڈیا کے مطابق کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

میانمار کو انڈونیشیا میں ہونے والے اجلاس میں ایک غیر سیاسی نمائندہ بھیجنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن فوجی حکومت نے اس اجلاس میں کسی بھی سطح پر شرکت سے انکار کر دیا۔

کمبوڈیا نے کہا ہے کہ مذاکرات کا مقصد اگلے ماہ آسیان کے سربراہی اجلاس سے قبل امن عمل کو آگے بڑھانے کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا ہے۔

اجلاس کیوں ہو رہا ہے؟

روئٹرز کے مطابق آسیان تنظیم میانمار میں امن عمل کے لیے سفارتی سطح پر اقدامات کر رہی ہے لیکن یہ عمل اب تک ناکام رہا ہے کیوں کہ ینگون پر قابض فوجی حکومت اس ’پانچ نکاتی اتفاق رائے‘ کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس پر اس نے اپریل 2021 میں آسیان کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔

آسیان کا سربراہی اجلاس اگلے ماہ اپنا شروع ہو رہا ہے جس میں متعدد عالمی رہنما شریک ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے آسیان منصوبے کی حمایت کی تھی لیکن اب بین الاقوامی برادری کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے کیوں کہ فوجی جرنیل 2023 کے انتخابات سے قبل اپنی طاقت کو مضبوط کرنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ت کہ وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکیں۔

ثالث کے طور پر قابل اعتبار رہنے کے لیے آسیان تنظیم کو اپنے سربراہی اجلاس سے پہلے ایک نئی حکمت عملی پیش کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

معاہدہ کیا ہے؟

معاہدے میں میانمار کے تمام فریقین کے درمیان دشمنی کا فوری خاتمہ اور تعمیری مذاکرات کا آغاز پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں آسیان کے خصوصی ایلچی کو ثالثی کرنے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے ملنے کی اجازت دینا اور تنظیم کو انسانی امداد فراہم کرنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔

ابھی تک آسیان کے موجودہ سربراہ ملک کمبوڈیا کی طرف سے صرف ایک ہی کامیابی کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کچھ انسانی امداد تک عوام کی رسائی کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ بھی محدود اور مشروط ہے۔

خصوصی ایلچی نے کیا کیا ہے؟

آسیان نے میانمار کے دو خصوصی ایلچی نامزد کیے تھے اور دونوں نے فوجی حکومت کی جانب سے معزول رہنما آنگ سان سوچی سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز تک رسائی دینے سے انکار کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

میانمار کی جنتا حکومت نے اپوزیشن یا سول سوسائٹی کے گروپوں کو مذاکرات میں شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور شیڈو نیشنل یونیٹی گورنمنٹ (این یو جی) اور قانون سازوں کے اتحاد کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے اسے بھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

فوجی حکومت نے مزاحمتی گروپوں کو ملیا میٹ کرنے کا عزم کیا ہے اور اس کی کارروائیوں میں عام شہری بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں جس کی بین الاقوامی سطح پر بار بار مذمت کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسیان کے موجودہ ایلچی کمبوڈیا کے وزیر خارجہ پراک سوکھون نے شکایت کی ہے کہ تمام فریقین کے درمیان سیاسی اتفاق کی عدم موجودگی اور اعتماد کی کمی مذاکرات میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس تنقید کو سمجھتے ہیں کہ ان کے دورے یک طرفہ تھے اور یہ فوجی حکومت کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اب تک جرنیلوں سے کئی ملاقاتیں منسوخ اور شیڈو نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کو بات چیت میں شامل کرنے کے لیے فوج کو منانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہے۔

فوجی حکومت کا کیا ردعمل ہے؟

میانمار کی فوجی حکومت نے آسیان کے اہم ارکان پر مداخلت کا الزام لگایا ہے اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ شیڈو نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کے ساتھ بات چیت نہ کریں۔

اس نے اگست میں تفصیلات فراہم کیے بغیر امن منصوبے پر ’قابل ذکر پیش رفت‘ کا حوالہ دیا تاہم یہ بھی کہا کہ اس کی وابستگی کا تعین زمینی پیش رفت سے کیا جائے گا۔

فوجی حکومت نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا ہے کہ وہ آسیان کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جنتا حکومت نے ملک کو محفوظ اور سیاسی بات چیت کے قابل بنانے کے لیے فوجی کارروائیوں کو ضروری قرار دیا ہے۔

آسیان اب کیا کر سکتی ہے؟

یہ واضح نہیں کہ وزرائے خارجہ اجلاس میں کیا تجاویز سامنے آئیں گی۔

میانمار کو تنظیم کے رکن کے طور پر معطل کرنا ممکن نہیں ہوگا تاہم ملک پر تجارتی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا