سندھ: 'تاریخ میں پہلی بار' سات ہرنوں کا 23 لاکھ روپے خون بہا اور جرمانہ

حکام کے مطابق پانچ ملزمان نے سات چنکارا ہرنوں کے غیر قانونی شکار کے خون بہا اور جرمانے کی مد میں 23 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا ہے۔

ضلع تھرپارکر میں گاؤں لوبھار کے رہائشیوں نے جنگلی حیات کے شکار کرنے والے ملزمان کو پکڑ کر ان کے قبضے سے جانور برآمد کیے اور پھر قبریں بناکر ان کی تدفین کی گئی (تصویر میر اعجاز حسین تالپور )

صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں رواں برس جولائی میں سات چنکارا ہرن کے شکار کے الزام میں تقریباً چار مہینے سے قید تین ملزمان سمیت مقدمے میں نامزد پانچوں ملزمان نے مقامی عدالت کی معرفت محکمہ جنگلی حیات سندھ کو 23 لاکھ 20 ہزار روپے کا جرمانہ ادا کردیا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے حکام کے مطابق صوبے کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جنگلی حیات کے شکار کرنے والے ملزمان نے غیر قانونی شکار کرنے کے بعد جانوروں کے خون بہا اور جرمانے کی مد میں اتنا بھاری مالی معاوضہ ادا کیا ہو۔ 

محکمہ جنگلی حیات تھرپارکر کے ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز حسین تالپور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ حالیہ برس جولائی کے آغاز میں تھرپارکر ضلع کے شہر چیلہار کے قریبی گاؤں رنگیلو کے پاس پیش آیا، جہاں چنکارا ہرن کے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہ میں پانچ ملزمان نے جیپ پر سوار ہوکر سات چنکارا ہرنوں کا شکار کیا۔ 

میر اعجاز حسین تالپور کے مطابق: ’مقامی افراد نے چنکارا ہرنوں کا شکار کرنے والے شکاریوں کو نہ صرف شکار سے روکا، بلکہ تین شکاریوں کو پکڑ لیا اور دو شکاری فرار ہوگئے، جس کے بعد محکمہ جنگلی حیات سندھ نے سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس مقدمے پر سماعت چلتی رہی، آخر کار ملزمان نے اپنا جرم قبول کرلیا، جس پر عدالت نے محکمہ جنگلی حیات کو قانون کے تحت ملزمان پر شکار کیے گئے جانوروں کی ویلیو آف پراپرٹی کے ساتھ جرمانہ عائد کرنے کا کہا۔

’جس کے بعد سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ایکٹ 2020 کی دفعہ 27 اے اور ایکٹ کے رولز آف بزنس نو سے 31 اور 62 کے مطابق خون بہا کا تعین کیا گیا۔‘

میر اعجاز حسین تالپور نے مزید بتایا کہ ’شکار کیے جانے والے تین نر چنکارا ہرن کے خون بہا کی قیمت فی ہرن دو لاکھ روپے، چار مادہ ہرن کے خون بہا کی قیمت تین لاکھ روپے فی ہرن اور خرگوش کی قیمت 20 ہزار روپے رکھی گئی۔

’اس حساب سے تین نر اور چار مادہ اور ایک خرگوش کے خون بہا کی قیمت 18 لاکھ 20 روپے رکھی گئی جبکہ پانچوں ملزمان پر ایک لاکھ روپے فی فرد کے حساب سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔ اس طرح ملزمان نے 23 لاکھ 20 ہزار روپے ادا کیے۔‘

میر اعجاز حسین تالپور کے مطابق ان کے محکمے نے شکاریوں کی جیپ اور ہتھیار بھی تحویل میں لے لیے تھے۔ 

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سندھ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی جنگلی جانور کے شکار پر ملزمان اتنے عرصے تک جیل میں رہے اور اس کے بعد جانوروں کے خون بہا کی مد اور جرمانے کی صورت میں اتنا بھاری معاوضہ بھی ادا کیا ہو۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ صرف سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 قانون کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس سے پہلے 40 سے 50 ہرن شکار کرلیے جاتے تھے مگر ان پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد نہیں ہوا تھا۔ ایک سیشن جج کسی بھی ملزم کو 50 ہزار روپے سے زائد کا جرمانہ عائد نہیں کرسکتا۔ یہ صرف اس نئے قانون کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔‘

ہرنوں کے شکار کے بعد شہری سراپا احتجاج 

سات ہرنوں اور ایک خرگوش کے شکار کا یہ واقعہ پانچ جولائی 2022 کی رات کو پیش آیا تھا، جب جیپ میں سوار پانچ ملزمان نے چنکارا ہرن کے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہ میں فائرنگ کرکے سات ہرنوں اور ایک خرگوش کا شکار کیا۔ 

فائرنگ کی آواز سن کر قریبی گاؤں لوبھار کے رہائشی 21 سالہ اتم سنگھ کی سربراہی میں گاؤں کے رہائشیوں نے جیپ میں سوار ہوکر تین شکاریوں کو پکڑ کر شکار کیے گئے سات چنکارا ہرن اور ایک خرگوش کو تحویل میں لے لیا تھا جبکہ دو شکاری فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

واقعے پر شدید غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے گاؤں کے رہائشیوں نے شکار کیے گئے ساتوں چنکارا ہرنوں سمیت جلوس کی صورت میں تھر کے ضلعی ہیڈ کوراٹر مٹھی پہنچ کر دھرنا دیا اور مطالبہ کیا تھا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس احتجاجی دھرنے میں عام شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔

اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے مٹھی کے مرکزی چوک پر ایک تعزیتی کیمپ بھی لگایا تھا، جہاں شہر کے لوگوں نے جمع ہوکر جنگلی حیات سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ جانوروں کے تحفظ کے لیے دعائیں بھی کی۔

بعد میں لوگوں نے باضابطہ طور پر قبریں کھود کر شکار کیے گئے ہرنوں کی تدفین کردی تھی۔

محکمہ جنگلی حیات حیدر آباد کے ڈپٹی کنزرویٹر واجد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ضلع تھرپارکر میں 940 مربع کلومیٹر کے علاقے کو چنکارا ہرن کے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہ یا چنکارا وائلڈ لائف سینکچوری قرار دیا ہے۔

یہ علاقہ ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی کے شمال میں چیلہار، مشرق میں بھوریلو اور مغرب میں وجوٹو تک پھیلا ہوا ہے۔ 

واجد شیخ کے مطابق: ’اس محفوظ پناہ گاہ میں شکار کرنا غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگ چنکارا ہرن کے شکار کے شدید مخالف ہیں۔

’مقامی لوگوں کی وجہ سے ہی شکاریوں کی گرفتاری ممکن ہوئی، بعد میں ان پر مقدمہ ہوا اور ملزمان نے بھاری معاوضہ ادا کیا۔‘

نئے قانون میں غیر قانونی شکار پر بھاری خون بہا اور جرمانہ 

سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے رولز آف بزنس 12 اکتوبر 2022 کو منظور کیے گئے ہیں، جس کے بعد سندھ میں جنگلی جانوروں کے غیرقانونی شکار پر انتہائی بھاری خون بہا اور جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی فہرست کے مطابق رولز آف بزنس میں سندھ میں جنگلی حیات کے انتہائی اہم سمجھے جانے والے جانور سندھ آئی بیکس اور اڑیال کی کوئی قیمت نہیں رکھی گئی۔ 

قانون کے مطابق ان دونوں جانوروں کے غیرقانونی شکار کرنے والے افراد سے ٹرافی ہنٹنگ کے لیے سب سے زیادہ لگنے والے بولی کے برابر قیمت وصول کی جائے گی۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق آئی بیکس کے غیر قانونی شکار پر ہر ایک آئی بیکس کے خون بہا کی قیمت کم از کم سات لاکھ روپے جبکہ اڑیال کی قیمت 14 لاکھ روپے تک وصول کی جائے گی۔ 

اسی طرح چنکارا ہرن کی قیمت دو لاکھ روپے، چیتے کی قیمت 10 لاکھ روپے، جنگلی گدھے کی قیمت پانچ لاکھ روپے، جنگلی بھیڑیے کی پانچ لاکھ روپے، کالے ہرن کی ڈھائی لاکھ روپے، خرگوش کی قیمت 20 ہزار روپے، انڈس ڈالفن کے غیر قانونی شکار کرنے پر خون بہا کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ 

سندھ میں شکار پر ایک سال کی پابندی عائد 

سندھ میں آنے والے حالیہ سیلاب کے بعد صوبائی حکومت نے صوبے میں گیم برڈ یا کھانے کے لیے شکار کیے جانے والے پرندوں کے شکار پر ایک سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔

سندھ کابینہ نے یہ فیصلہ 11 اکتوبر کو کیا تھا، جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن جمعرات 27 اکتوبر کو جاری کیا گیا۔ 

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق ایک سال کے لیے مکمل پابندی پہلی بار لگائی گئی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویسے تو سندھ میں ساڑھے تین سو سے زائد اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں، مگر اس نئی پابندی کا اطلاق صرف گیم برڈ یا کھانے کے لیے شکار کیے جانے والے پرندوں اور دیگر ممالک سے آنے والی بطخوں سمیت ماہی خور آبی پرندوں پر ہوگا۔

ان گیم برڈ یا کھانے کے لیے شکار کیے جانے والے پرندوں میں تیتر، بٹیر، بٹ تیتر اور چند بطخوں سمیت آٹھ سے دس پرندے شامل ہیں۔ 

سندھ جنگلی حیات کا قدرتی مسکن کا مرکز 

سندھ حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے ایک اہم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی معاہدے ’رامسر کنونشن‘ کے تحت حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اہمیت والی آب گاہوں کو رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کل 19 رامسر سائٹس ہیں، جن میں سے 10 صرف صوبہ سندھ میں ہیں۔ اس کے علاوہ روس، سائبیریا اور دیگر ممالک سے دنیا کے دوسروں خطوں میں جانے والے پرندوں کے راستے ’انڈس فلائے زون‘ پر واقعے ہونے کے باعث ہرسال بڑی تعداد میں مہمان پرندے سندھ کی آب گاہوں پر اترتے ہیں۔ 

سندھ کے مختلف قدرتی علاقوں میں موجود انواع و اقسام کے چرند، پرند کے قدرتی مسکن موجود ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق صرف کھیرتھر نیشنل پارک میں 30 ہزار سندھ آئی بیکس، 14 ہزار اڑیال، دو ہزار چنکارا کے علاوہ کالے ہرن اور پانچ سو سے زائد اقسام کے چرند، پرند، ممالیہ، پرندے اور کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات