’اس کام میں پھنس گئے ہیں‘: حیدرآباد کے رفوگر

حیدر آباد کے آخری رفو گروں میں سے ایک عبدالحمید نے بتایا کہ اب لوگ پرانے کپڑے رفو کروانے کی بجائے نئے خریدنے کو ترجیح کرتے ہیں۔

حیدرآباد میں خال خال رہ جانے والے رفوگروں میں سے ایک عبدالحمید اپنے بچوں کو یہ ہنر منتقل نہیں کر رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اب لوگ پھٹے ہوئے کپڑوں کو رفو کروانے کی بجائے نیا کپڑا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی ان کے پاس آ بھی جائے تو معقول معاوضہ نہیں دیتا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 45 سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ’ہمارے پورے خاندان میں کسی نے یہ ہنر نہیں سیکھا۔ صرف میں اکیلا اس کام میں آیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ ہنر بالکل نایاب ہوگیا ہے اور اس کے گاریکر نہیں ملتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اب کوئی گاریگر بننا بھی نہیں چاہتا۔ گاہک بھی نئے کپڑوں کی طرف بھاگتے ہیں، پرانے پہننا پسند نہیں کرتے۔‘

عبدالحمید نے بتایا کہ آج کل تھوڑا بہت گزر بسر ہوجاتا ہے، لیکن بہت پریشانی کا سامنا ہے۔

’ہم بہت محنت کر کے تقریباً دو سے تین گھنٹوں میں رفو کرتے ہیں لیکن لوگ مناسب دام نہیں دیتے۔‘

عبدالحمید نے بتایا کہ اب اس کام کا کوئی وارث نہیں۔ ’پھنس گئے یہ کام شروع کرکے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’نہ میں نے یہ کام اپنی اولاد کو سکھایا اور نہ کسی دوست یار نے سیکھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ان سے یہ کام سیکھنے کے لیے نہیں آتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا