صدف نعیم: ’صحافی سے زیادہ خبر کی اہمیت اس نہج پر لے آئی‘

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران ایک حادثے میں جان سے جانے والی خاتون صحافی صدف نعیم کے ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ صدف فیلڈ میں بغیر کسی ’سہولت‘ کے آئی تھیں۔

نجی ٹی وی چینل سے وابستہ خاتون صحافی صدف نعیم پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران حادثے کا شکار ہو گئی تھیں (فیس بک/ صدف نعیم)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کی کوریج کے دوران اتوار کی رات خاتون صحافی صدف نعیم کی حادثاتی موت نے دیگر صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران ان کے ادارے کی طرف سے حفاظتی اقدامات اور سہولیات پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

سادھوکی کے مقام پر پی ٹی آئی کے کنٹینر کے نیچے آکر جان سے جانے والی صدف نعیم کی ایک ویڈیو نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں انہیں ایک بیگ پیک پہنے کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں ان کے ساتھ کوئی کیمرہ پرسن نہیں۔  

صدف کے ایک ساتھی رپورٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گذشتہ تین دن سے لانگ مارچ کور کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ دفتر سے بغیر کیمرہ مین اور گاڑی کے فیلڈ میں آئی تھیں یہاں تک کہ لانگ مارچ جب لاہور سے باہر نکلا تو وہ ساتھیوں سے لفٹ لے کر پہنچیں۔

صحافی نے دعویٰ کیا کہ صدف کچھ روز سے پریشان تھیں کیوں کہ ان پر دفتر کا دباؤ تھا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا انٹرویو لے کر آئیں۔

یہ بات ان کے دیگر ساتھی صحافیوں نے بھی بتائی کہ صدف فیلڈ میں بغیر کسی سہولت کے آئیں تھیں۔ اس حوالے سے ہم نے ان کے چینل کے جنرل مینیجر فرقان ہاشمی سے رابطہ کیا۔

فرقان ہاشمی نے ان باتوں کی تردید کی صدف کو فیلڈ میں جانے کے لیے ادارے نے کوئی سہولت فراہم نہیں کی تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ صدف دوسرے اداروں کی گاڑیوں میں لفٹ لے کر مختلف مقامات پر لانگ مارچ کی کوریج پر کیوں جا رہی تھیں؟ تو اس کے جواب میں فرقان کا کہنا تھا کہ ’فیلڈ میں لمبے سفر پر اکثر آپ کمپنی کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ سفر کر لیتے ہیں اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔‘

کیا فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کو اس طرح کے ایونٹس کی رپورٹنگ کے دوران کوئی حفاظتی کٹ فراہم کی جاتی ہے؟

کیا صدف یا دیگر خواتین صحافیوں کو پرہجوم مقامات پر کوریج سے پہلے ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ کس حد تک جا سکتی ہیں؟

اس حوالے سے وائس آف امریکہ کے لاہور میں نمائندے ضیا الرحمن نے بتایا: ’بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ خواتین ہر فیلڈ میں برابر ہیں لیکن عملی طور پر بھی انہیں برابر ہونا چاہیے۔

’اس طرح کے ایونٹ ان سے دن کی رو شنی میں اور باقی مرد ساتھیوں کو ساتھ بھیج کر کور کروانے چاہییں اور شام ہونے سے پہلے انہیں محفوظ مقام پر منتقل کر دینا چاہیے۔‘ 

ضیا کہتے ہیں: ’ہم نے ماضی میں اس طرح کے لانگ مارچ کور کیے ہیں، جن کی عام طور پر خاتون صحافی دن کی روشنی میں کوریج کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ کیمرہ مین اور دیگر کریو ہوتا تھا۔

’بعض اوقات خواتین رپورٹرز سے ایسے بھی ڈیوٹی کروائی گئی کہ اپنے شہر کے اندر ہی مارچ کو کور کریں شہر سے باہر نہ جائیں یا جب مارچ اپنے مقام پر پہنچ جائے تو وہاں اسے کور کریں کیونکہ راستے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور ہر طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ مرد ہیں اس کے باوجود ان کے ادارے نے انہیں لانگ مارچ کور کرنے سے پہلے ہدایت کی کہ انہیں خود کو محفوظ رکھنا ہے۔

نیو ٹی وی کی نمائندہ اور صدف کے ساتھ فیلڈ میں کام کرنے والی روبا عروج نے کہا پہلے آپ جب ایسی کوریج کے لیے جاتے تھے تو وہاں میڈیا انکلوژرز بنتے تھے۔ سب کو رسائی ہوتی تھی اب کچھ خاص صحافیوں کو ساتھ کنٹینر پر بٹھا لیا جاتا ہے یا کوئی اہم شخصیت ہو تو اس تک رسائی بھی چند چینلز کے نمائندوں کو دی جاتی ہے۔

’اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے چینلز کے صحافی رہ جانے کے خوف سے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور صدف اس دباؤ کی زد میں آنے والے صحافیوں کی بہترین مثال ہیں۔‘   

روبا نے مزید بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق صدف بغیر گاڑی کے لفٹ لے کر پہنچی تھیں۔ انہوں نے ایک بیگ پیک پہنا ہوا تھا۔  

’یہ چیزیں دیکھنے والی ہیں کہ جو ادارے آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ اتنے مشکل حالات میں کسی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا انٹرویو لے کر آئیں وہ اس کے لیے آپ کو کیا سہولیات اور سکیورٹی فراہم کرتے ہیں؟‘

روبا نے بتایا کہ وہ انہی حالات کی وجہ سے مرکزی الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹنگ ترک کر چکی ہیں۔

اب وہ اپنے چینل کے ڈیجیٹل شعبے کے لیے بطور نامہ نگار خصوصی اور اینکر کام کر رہی ہیں۔

’فیلڈ جرنسلٹ ہونا مشکل ہے اور اگر آپ خاتون ہیں تو فیلڈ میں آپ کو اپنی جان کی ہی نہیں اپنی عزت کی حفاظت بھی کرنا پڑتی ہے۔‘  

ان کے خیال میں اتنے مشکل حالات میں کام کرنے والے صحافیوں کے اہل خانہ کو چاہیے کہ وہ اپنے پیاروں کو زندگی خطرے میں ڈالنے سے روکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں صحافیوں کو اپنی حفاظت کرنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔

’میں نے کئی کیمرہ مینوں کو دیکھا جو کیمرے کو سینے سے لگا رہے ہوتے ہیں کہ اگر کیمرے کو نقصان ہوا تو وہ ان کی تنخواہ سے پورا کیا جائے گا۔‘

سینیئر اینکر اور صحافی تنزیلہ مظہر نے کہا جہاں تک اداروں کا صحافیوں کو سہولتیں دینے کی بات ہے تو یہ ایک ’بدقسمت کہانی‘ ہے۔

’یہاں تو تنخواہیں بھی نہیں ملتیں۔ چوں کہ میں نے فیلڈ رپورٹنگ کی ہوئی ہے، مجھے معلوم ہے کہ صحافت کا جنون آپ کو رکنے نہیں دیتا۔‘

تنزیلہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا سکیورٹی کے حوالے سے ہمارے نیوز چینلز صحافیوں کی کوئی ٹریننگ نہیں کرتے سوائے چند چینلز کے۔

’صحافیوں کی تربیت ہونی چاہیے کہ کوئی بھی خبر آپ کی زندگی کی آخری خبر نہیں ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ ہر چینل چاہے وہ بڑا میڈیا ہاؤس ہو یا چھوٹا سب کو موقع دیں کیوں کہ جب سب کو معلوم ہوگا کہ انہیں وقت ملے گا تو انہیں بھاگنا نہیں پڑے گا۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنزیلہ کا خیال ہے کہ پوری میڈیا انڈسٹری کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

بشریٰ اقبال حسین ایک صحافی ہیں اور مختلف اداروں کے ساتھ مل کر صحافیوں کی تربیتی ورک شاپس کرواتی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دیکھنا یہ ہے کہ صحافیوں کی تربیت کتنی ہے۔ آپ کا مائنڈ سیٹ کیا ہے آپ کو موقع پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‘

’جب آپ موقع پر ہیں اور آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کے پیچھے جا رہے ہیں جس تک آپ کی رسائی ممکن نہیں تو ایسی چیز کے پیچھے بھاگنا بے وقوفی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ تربیتی کورسز میں ذہن سازی کی جاتی ہے۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کس صورت حال میں کیا کرنا ہے۔

بشریٰ کہتی ہیں کہ یہاں خاتون اور مرد کی تخصیص نہیں، فیلڈ میں موجود پوری ٹیم کے ساتھ زیادتی ہے کیوں کہ کوئی لائف انشورنس یا دیگر مراعات نہیں۔

الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر آصف بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نیوز چینلز یا حکومتی سطح پر دوران کوریج مکمل سہولیات کا صحافیوں کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔

’ہر نیوز چینل اپنے طور پر سہولیات دیتا ہے گاڑی، کیمرہ مائیک یا ڈی ایس این جی تو کوریج ٹول ہیں جو رپورٹرز اور کیمرہ مین کو دے کر دفتر سے روانہ کر دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حفاظتی سامان کسی ٹیم کو فراہم نہیں کیا جاتا۔ جب سے موبائل کوریج شروع ہوئی کئی چینلز تو اب کیمرے کی بجائے موبائل تھما دیتے ہیں اور کئی صحافی اپنے ہی موبائل سے کوریج کر کے روزگار بچاتے ہیں۔‘

آصف بٹ کے بقول سہولیات تو درکنار چند بڑے چینلز کے علاوہ صحافیوں کو تنخواہیں تک ریگولر نہیں ملتیں۔ حکومت کی جانب سے طے شدہ کم از کم اجرت 18-20 ہزار بھی کئی چینل ملازمین کو نہیں دیتے۔

’ایسے حالات میں رپورٹرز اور کیمرہ مین نوکری بچانے کے لیے اور اچھی نوکری تک پہنچنے کے لیے وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی بارے میں انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ جان سکیں کہ نیوز چینلز نے اپنے فیلڈ میں کام کرنے والوں کو تحفظ اور سہولیات دینے کے کیا اصول وضع کیے ہیں۔

تاہم متعدد کوششوں کے باوجود ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ 

صحافیوں کی حفاظت کے لیے کوئی قوانین موجود ہیں یا بنانے کا امکان ہے؟ اس حوالے سے حکومتی عہدیداروں جن میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی شامل ہیں سے بھی متعدد بار رابطہ کیا گیا ان کی جانب سے بھی خاموشی ملی۔

البتہ پنجاب یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ نجی چینل صحافی صدف نعیم کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے کی رقم دے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان