محمد حارث: بس وہ ایک تبدیلی

پاکستان ٹیم کے اس ورلڈ کپ میں اب تک کے سفر سے لے کر اوپننگ جوڑی اور بابر اعظم کی فارم پر تو سب بات کر رہے ہیں لیکن اگر بات نہیں ہو رہی تو اس ایک تبدیلی کی، جس کے بعد سب تبدیل ہو گیا۔

محمد حارث کو فخر زمان کی جگہ سکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا (محمد حارث/ ٹوئٹر)

یقین تو اب بھی نہیں آ رہا لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا ہے۔

یقین تو تب بھی نہیں آ رہا تھا جب 1992 میں انہی میدانوں پر پاکستان نے اٹھتے، گرتے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ کر نیوزی لینڈ کو ہی فائنل تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔

اب بھی پاکستان نے اسی انداز میں پہلے تو کوالیفائی کیا اور پھر نیوزی لینڈ ہی کو باہر کر کے میلبرن کی تیاری کر لی ہے، جہاں پاکستان کا مقابلہ انڈیا یا پھر انگلینڈ سے اتوار کو ہو گا۔

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے پہلے اور بعد میں بھی پاکستانی اوپنرز کی جوڑی پر بات ہو رہی ہے۔ پہلے کہہ رہے تھے کہ انہیں تبدیل کیا جائے اور اب کہہ رہے ہیں کہ واہ کیا کھیلے ہیں۔

بابر اعظم کی فارم کو لے کر تنقید کرنے میں حد سے ہی گزر جانے والے ایک بار پھر انہیں ’کنگ بابر‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔

اگر بات نہیں ہو رہی تو اس ایک تبدیلی کی نہیں ہو رہی، جس نے آتے ہی سب کچھ تبدیل کر دیا۔

اس ایک تبدیلی نے پاکستان ٹیم کے ماحول اور سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے، جو پہلے جنوبی افریقہ اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف دو اہم میچوں میں دکھائی دی۔

وہ تبدیلی تھے محمد حارث۔ محمد حارث جب سے پلیئنگ الیون کا حصہ بنے ہیں پاکستان جیت رہا ہے لیکن ایسا صرف ان کے ٹیم میں ہونے سے نہیں ہو رہا بلکہ وہ پاکستان کو جتوا رہے ہیں۔ 

محمد حارث کو ویسے تو پاکستان سپر لیگ میں سب دیکھ چکے تھے لیکن حیدر علی اور آصف علی کے مسلسل ناکام ہونے کے باجود کوئی بھی انہیں ٹیم میں شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا تھا۔ سب سوال اٹھا رہے تھے کہ آخر فخر زمان کو کیوں نہیں کھلایا جا رہا؟

شاید فخر زمان کا تجربہ دیکھا جا رہا تھا اور شاید محمد حارث سے زیادہ امیدیں نہیں تھیں۔

مگر محمد حارث نے ایک موقع ملنے کے بعد جو کیا اس کے بعد نہ صرف پاکستانی مداحوں کی ان سے امیدیں بڑھنے لگ گئی ہیں بلکہ خود بابر اعظم بھی ان پر بھروسہ کرنے لگے ہیں۔

انہیں فخر زمان کے دستیاب نہ ہونے اور حیدر علی کے ساتھ آصف علی کی خراب فارم کی وجہ سے پاکستان کے لیے اس ٹورنامنٹ کے سب سے اہم میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف موقع دیا گیا۔

اس میچ میں بابر اعظم اور محمد رضوان کے ناکام ہونے کے باوجود ایک انتہائی خطرناک بولنگ اٹیک کی بالکل پروا نہ کرتے ہوئے محمد حارث نے ورلڈ کپ میں اپنی پہلی اننگز کا آغاز چھکے سے کیا اور صرف 11 گیندوں پر تین چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 28 رنز کی ایسی اننگز کھیلی جس کو دیکھ کر بعد میں آنے والے شاداب خان اور افتخار احمد کے دل بھی بڑے ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یقیناً یہی اننگز تھی جسے دیکھ کر دیگر بلے بازوں نے سوچا کہ اگر یہ نوجوان بلے باز ایسے کھیل سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔

ان کی اس اننگز نے جنوبی افریقی بولرز کی لائن و لینتھ ایسی خراب کی کہ وہ پھر جگہ پر نہ آ سکی۔

اس کے بعد جب ایک موقعے پر یہ لگنے لگا تھا کہ کہیں پاکستان زمبابوے کی طرح بنگلہ دیش سے بھی نہ ہار جائے، محمد حارث پھر سے کریز پر آئے اور اپنی برق رفتار اننگز سے بنگلہ دیش کی امیدوں پر پانی پھیر گئے۔

انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ہدف کے تعاقب کے دوران 18 گیندوں پر دو چھکے اور ایک چوکا لگا کر 31 رنز بنائے اور پاکستان کو سیمی فائنل تک لے آئے۔

اس میچ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈریسنگ روم کی ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں بابر اعظم کھلاڑیوں سے بات کر رہے تھے۔

بابر اعظم اس ویڈیو میں محمد حارث سے یہ کہتے دکھائی دیے کہ ’تم بہت اچھا کر رہے ہو، لیکن جب میچ کو اتنا قریب لے جاتے ہو تو پھر ختم کر کے آؤ۔

’ہمیں بھی بڑوں نے یہی بتایا ہے کہ میچ کو ختم کر کے ہی باہر آؤ۔۔ تو اب تم بھی کوشش کرو کے میچ ختم کر کے ہی باہر آؤ۔‘

یقیناً بابر اعظم کے یہ الفاظ محمد حارث کو سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے حلاف بیٹنگ کرتے ہوئے یاد رہے اور انہوں نے ویسا ہی کرنے کی کوشش کی جو ان سے کہا گیا تھا۔

سیمی فائنل میں بابر اعظم اور محمد رضوان جب پاکستان کو فائنل کے انتہائی قریب لے آئے تو اچانک بابر اعظم کے آؤٹ ہونے کے بعد محمد حارث ہی کو کریز پر بھیجا گیا۔

محمد حارث نے کریز پر آتے ہی چوکا لگا کر اننگز کا آغاز کیا تو لگ رہا تھا کہ وہ آج بھی جارحانہ موڈ میں ہیں اور جلدی سے میچ ختم کرنے آئے ہیں۔

مگر ان کو یاد تھا کہ میچ ختم کرنا ہے۔

لہذا انہوں نے اپنا سٹائل تھوڑا سا تبدیل کیا اور صرف بڑی شاٹس کھیلنے کے بجائے رک کر کھیلتے رہے۔ اس دوران وہ اہم موقع پر پہلے چوکا اور پھر چھکا لگا کر پاکستان کو فائنل سے چند رنز کی دوری پر لے آئے۔

محمد حارث نے 26 گیندوں پر 30 رنز کی اہم اننگز کھیلی۔

میچ کے بعد ایک بار پھر کپتان بابر اعظم نے حارث کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک نوجوان کھلاڑی ہے اور اپنا ایگریشن دکھا رہا ہے۔‘

بابر اعظم نے کہا کہ ’وہ بہت اچھا کھیل رہا ہے اور اس نے اپنے ایگریشن سے دنیا کو پیغام دے دیا ہے۔‘

اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہلی اننگز کے بعد سے ہی دنیا بھر کے کھلاڑی اور تجزیہ کار ان کے بارے میں بات کرنے لگے تھے، مگر جہاں سب ان کی تعریف کر رہے تھے وہیں پاکستانی ان سے سیدھا اوپننگ کروانے کا مطالبہ کرنے لگ گئے۔

جو شاید محمد حارث کے ساتھ تھوڑی زیادتی ہو جاتی، کیونکہ اگر ان سے بطور اوپنر رنز نہ ہوتے تو انہیں اسی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا جس کا سامنا بابر اعظم اور محمد رضوان پہلے ہی کر رہے تھے۔

لیکن ورلڈ کپ کے بعد انہیں یقینی طور پر بطور اوپنر موقع ملنا چاہیے، جس کی وجہ ان کی سوچ اور جارحانہ انداز ہے۔

اگر اس ورلڈ کپ میں محمد حارث کے کل رنز دیکھے جائیں تو انہوں نے تین میچوں میں صرف 89 رنز ہی سکور کیے ہیں لیکن یہ اہم نہیں بلکہ انہوں نے یہ 89 رنز کس موقع پر اور کیسے بنائے، وہ زیادہ اہم ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ