جی20 اجلاس: سعودی ولی عہد اور عالمی رہنماؤں کی ملاقاتیں

انڈونیشیا میں جاری جی 20 سربراہی اجلاس میں دنیا کی بڑی معیشتیں یوکرین کی جنگ، عالمی معیشت میں گراوٹ اور فوڈ سکیورٹی جیسے دنیا کو درپیش مسائل پر بحث کریں گی۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دیگر عالمی رہنماؤں کے ہمراہ انڈونیشیا میں موجود ہیں جہاں وہ جی 20 سربراہی اجلاس میں  شرکت کر رہے ہیں۔

انڈونیشیا میں جاری جی 20 سربراہی اجلاس میں دنیا کی بڑی معیشتیں یوکرین کی جنگ، عالمی معیشت میں گراوٹ اور فوڈ سکیورٹی جیسے دنیا کو درپیش مسائل پر بحث کریں گی۔

سعودی عرب کے ولی عہد نے انڈونیشیا میں سربراہی اجلاس کے موقع پر منگل کو ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی۔ 

عرب نیوز کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی پیشرفت اور مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اس دورے میں کئی ایشیائی ممالک بھی شامل ہوں گے۔ تاہم حکام نے ابھی تک اس دورے کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی ولی عہد کا ایک ممکنہ پڑاؤ جنوبی کوریا ہے، جہاں مقامی میڈیا کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

اس کے بعد توقع ہے کہ وہ بینکاک میں جمعے سے شروع ہونے والے ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن فورم میں شرکت کریں گے۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ریاض کا واشنگٹن کے ساتھ تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی کے فیصلے کی وجہ سے تنازع چل رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی افراط زر اور توانائی کی بلند قیمتوں کے ہوتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے تیل کی پیداوار میں کمی کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے۔

امریکہ نے اوپیک پلس کی جانب سے پیداوار میں کمی کو یوکرین کی جنگ میں ’روس کے ساتھ اتحاد‘ کے مترادف قرار دیا اور غیر واضح ’نتائج‘ کے بارے میں متنبہ کیا۔

اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن اور شہزادہ محمد بن سلمان دونوں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بالی میں موجود ہیں لیکن وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر کا دوطرفہ ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

حالیہ مہینوں میں تیل کی فروخت سے ریکارڈ منافع کا اعلان کرنے کے باوجود، سعودی حکام اپنی پالیسیوں کا اس طرح بھرپور دفاع کرتے ہیں جیسے خالصتاً معاشیات پر مبنی ہوں۔

یہ تعطل ان قیاس آرائیوں کو روکنے کے لیے ناکافی رہا ہے جن میں کہا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اپنے سکیورٹی اور انرجی کے شراکت دار سے دور ہو رہا ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاست کے ماہر عمر کریم کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورے نے اس تبدیلی کو مزید قابل فہم بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ دورہ ایشیا میں توانائی کی منڈیوں کے ساتھ ہم آہنگی کو مزید فروغ دینے کے لیے ہے، بلکہ وسیع تر مغربی دنیا اور بنیادی طور پر امریکہ کو یہ دیکھانے کے لیے بھی ہے کہ سعودی عرب کے پاس شراکت داری کے لحاظ سے آپشنز کی کمی نہیں ہے۔‘

توانائی کے تعلقات

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر قائم ہونے والے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کو اکثر تیل کے بدلے سکیورٹی کے انتظامات کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود گذشتہ ایک دہائی سے سعودی خام تیل کی سب سے بڑی برآمدی منڈیاں ایشیا میں رہی ہیں: چین، جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا۔

سعودی خارجہ پالیسی کے ایک تجزیہ کار عزیز الغاشیان نے وضاحت کی کہ سعودی حکام نے پانچ سال قبل شہزادہ محمد بن سلمان کے تخت کے وارث بننے سے پہلے ہی خطے میں تعلقات کو فروغ دینے پر خصوصی زور دینا شروع کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن میں یہ کہوں گا کہ سعودی عرب کی مارکیٹ اور اقتصادی طور پر چلنے والی خارجہ پالیسی سے اب اس میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس قسم کے دوروں اور ایشیا پر توجہ مرکوز کرنے میں تیزی آئی ہے۔‘

رسک انٹیلی جنس فرم ویرسک میپل کرافٹ میں ایشیا انرجی سپیشلسٹ کاہو یو نے کہا کہ امکان ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں خطے کو مزید برآمدات کو آسان بنانے کے لیے متعدد اقدامات پر بات چیت ہوگی، جن میں ممکنہ ریفائنری اور سٹوریج کی سہولت کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف سعودی عرب سے تیل خریدنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ سپلائی چین کے ساتھ تعاون کو بڑھانے کی کوشش کے متعلق ہے۔‘

سعودی عرب بھی خام تیل کی متبادل اشیا پر ایشیائی ممالک کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے۔

پیر کو، سعودی آرامکو اور انڈونیشیا کی سرکاری کمپنی پرٹامینا نے ’ہائیڈروجن اور امونیا کے شعبوں میں تعاون‘ کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایشیائی شراکت داروں کے ساتھ توانائی کے مذاکرات انتہائی اہم وقت میں اس وقت ہو رہے ہیں جب چند ہفتوں بعد اوپیک پلس کا اگلا اجلاس چار دسمبر کو ہوگا۔

امکان ہے کہ اس اجلاس کی وجہ سے توانائی کی فراہمی پر عالمی تنازعات پھر سرخیوں کی زینت بنیں گے۔

کسی کے ’ماتحت‘ نہیں

چین کے صدر شی جن پنگ دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ایشیا اس سے بھی قبل ہے۔

اگرچہ کسی تاریخ کا باضابطہ اعلان فی الحال نہیں ہوا لیکن سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ سعودی عرب شی جن پنگ کے ساتھ مذاکرات کی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہا ہے جس میں دیگر عرب ممالک بھی شامل ہوں گے۔

’پہلے سعودی‘ پر مبنی خارجہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دینا ریاض کے عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کے اقدام کا مضبوط ترین ممکنہ اشارہ دیتا ہے۔

ویریسک میپل کرافٹ سے تعلق رکھنے والے ٹوربجورن سولٹیویڈٹ نے کہا کہ ’جب سکیورٹی کی بات آتی ہے تو وہ اب بھی امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، لیکن وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ دوسرے سٹریٹجک تعلقات کی تلاش میں ہیں، شاید آہستہ آہستہ امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

برمنگھم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عمر کریم نے کہا کہ ’میرے خیال میں سعودیوں کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ یہ دیکھائیں کہ وہ اس میں فریق نہیں بن رہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا موجودہ رجحان اپنے طور پر ایک کھلاڑی کا ہے، نہ کہ کسی بڑی طاقت کا کوئی لاڈلا یا ماتحت۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا