’خیبر پختونخوا مالی مشکلات کے باوجود دیوالیہ نہیں ہو رہا‘

گذشتہ چند مہینوں کے دوران خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کے تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں کے خلافب مظاہروں سے تاثر ابھرا کہ شاید صوبہ مالی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے صوبے کی مالی مشکلات کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیا ہے (تیمور خان جھگڑا فیس بک)

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے ایک مرتبہ پھر دعوی کیا ہے کہ صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ضرور ہے لیکن دیوالیہ ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وفاق سے رقوم کی منتقلی نہ ہونے کے باعث خیبر پختونخوا نے اخراجات کم کیے ہیں، جس کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگیوں پر اثر پڑ رہا ہے۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا میں مختلف تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، سرکاری اداروں کے حاضر سروس اور سبکدوش ملازمین نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور تاخیر کے خلاف کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

سرکاری ملازمین کی دہائی کے بعد یہ اطلاعات منظر عام پر آنا شروع ہوئیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا مالی دیوالیہ پن کا شکار ہونے جا رہا ہے یا ایسی صورت حال سے دوچار ہو چکا ہے۔

تاہم صوبائی حکومت مالیہ دیوالیہ پن سے متعلق اطلاعات اور میڈیا میں آنے والی خبروں کی وقتاً فوقتاً تردید کرتی رہی ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں عدم ادائیگیوں کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صرف ترقیاتی منصوبوں سے منسلک تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

’صوبے کو اپنے امور چلانے کے لیے وفاق سے رقوم کی منتقلی ضروری ہے۔ بصورت دیگر ہم حالات قابو کرنے کے لیے اخراجات میں کمی لائیں گے، جس کا سب پر اثر پڑے گا۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں بے حد مالی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن صوبہ دیوالیہ ہونے کی خبریں محض قیاس آرائیاں ہیں۔‘

تیمور جھگڑا نے بتایا: ’عوام کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس وقت این ایف سی، نیٹ ہائیڈل پرافٹ اور قبائلی اضلاع کے لیے مختص رقوم کا حجم 120 ارب روپے ہے جو وفاق کے ذمے واجب الادا ہے، اور جسے وفاق نے روک رکھا ہے، تاکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ناکام بنایا جائے۔‘

تاہم اب خیبر پختونخوا حکومت صوبے کی مالی مشکلات، بےقاعدگیوں اور بدنظمی کا ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو قرار دے رہی ہے۔

ماہرین کی رائے

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر ذلاکت خان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومتیں ہمیشہ مالی بحران  اور دیوالیہ ہونے کی خبروں سے انکار کرتی ہیں، تاہم اگر حکومتی ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا نہ ہوں تو یہ اشارہ ہے کہ صوبہ سنگین مالی اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔

پروفیسر ذلاکت کے مطابق: ’صوبائی حکومتیں ہمیشہ وفاقی حکومت پر عدم تعاون اور عدم ادائیگیوں کا الزام عائد کرتی رہتی ہیں لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیار حاصل ہوچکا ہے کہ وہ کسی بحران کی صورت میں کسی بھی غیر ملکی ادارے سے قرض لیں یا اپنے وسائل بڑھانے کے لیے ٹیکس لاگو کریں جو ایک فوری حل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’وفاق میں تحریک انصاف کے حکومت کے دوران ان (خیبر پختونخوا) کے پاس اچھا موقع تھا وفاق سے اپنے واجبات کی ادائیگیوں کو یقینی بنانے کا، انہوں نے یہ موقع گنوا دیا۔‘

خیبر پختونخوا میں قائد حزب اختلاف سردار حسین بابک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں خیبر پختونخوا کو این ایف سی کے تحت ملنے والی رقوم کا اجرا نہیں کیا۔

’جبکہ گذشتہ 10 سال سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، یہ جماعت پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ تو کرتی ہے لیکن ہم نے کبھی ان کو صوبے کا آئینی حق مانگتے نہیں سنا۔‘

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے الزام لگایا کہ وزیر اعلی محمود خان مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاسوں میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے ڈر سے صوبے آئینی حق کے مطالبے پر خاموش رہتے تھے۔

سردار بابک نے افسوس کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی حکومت صوبے میں دہشت گردی اور امن وامان کی غیر یقینی صورت حال پر خاموش ہے۔

’خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 95 اراکین اپنی اکثریت کو دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔‘

وفاق کے ذمہ واجب الادا رقم

خیبر پختونخوا حکومت کا موقف ہے کہ اگر وفاق این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کو ملنے والے حصے، بجلی کے خالص منافع کی مد میں 50 سے 60 ارب  روپے کی ادائیگی کر دے تو صوبے کو درپیش مالی بحران ختم ہوسکتا ہے۔

تیمور جھگڑا نے مالی بحران کے حوالے سے اکتوبر میں کہا تھا کہ صوبے کو ترقیاتی فنڈز میں 8.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ رواں مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے 20 ارب روپے سے زیادہ اور بجلی کے منافع کے طور 30 ارب روپے ابھی تک ادا نہیں کیے۔

تیمور سلیم جھگڑا کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے خیبر پختونخوا کو بجلی کے منافع کی مد میں 68 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی، جبکہ رواں مالی سال کے دوران وفاق میں اتحادی حکومت نے ایک پائی کی ادائیگی نہیں کی۔

صوبائی وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب میں صوبے کو 124 ارب روپے کا نقصان ہوا اور آئی ایم ایف کو قرضوں کی قسط کی مد میں 25.3 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

وفاق کو موجودہ مالی بحران کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے بیانات کے جواب میں فنانس ڈویژن کے ترجمان برج لال دوسانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وفاق خیبر پختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ دے چکا ہے، لہذا اب جو باقی ماندہ ضروریات ہیں، وہ صوبہ اپنے مالی وسائل سے پورا کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست