بنوں دھرنا:’ منگنی کے لیے پیسے کمانے گیا لیکن لاش واپس آئی‘

بنوں سے تعلق رکھنے والے تین تاجروں کو 28 اور 29 نومبر کی درمیانی شب میر علی بازار سے اغوا کیا گیا اور بعد ازاں ان کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

مقتولین (دائیں سے بائیں) ہارون خان، دلدار شاہ اور رحمت اللہ (نصیب دراز)

’کچھ عرصے میں اس کی منگنی کی تقریب ہونا تھی، اور وہ شمالی وزیرستان کے شہر میر علی گیا کہ اپنے چاندی کے کاروبار سے کچھ پیسے کما سکوں۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے نصیب دراز کا، جن کے 20 سالہ بھتیجے ہارون کو دو دوسرے تاجروں کے ہمراہ، گذشتہ مہینے میر علی سے اغوا اور بعد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

تینوں تاجر میر علی میں چاندی کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے قتل کے خلاف بنوں میں گذشتہ چھ روز سے دھرنا جاری ہے، جس کے شرکا مرحومین کے خاندانوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

نصیب دراز، جنہوں نے تینوں مقتولین کے قتل کا مقدمہ میر علی پولیس سٹیشن میں درج کیا، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاجروں کو 28 اور 29 نومبر کی درمیانی رات اغوا کیا گیا، اور بعد ازاں ان کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

نصیب دراز کے مطابق تینوں مقتولین (ہارون، رحمت اللہ اور دلدار شاہ) کا تعلق بنوں سے تھا، اور وہ میر علی بازار میں الگ الگ کاروبار چلاتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ہارون نے تقریباً 15 روز قبل ہی میر علی میں کام شروع کیا تھا، اور روزانہ شام کو بنوں میں اپنے واپس آتا تھا، تاہم دیر ہونے کی صورت میں دکان پر رات گزارتا تھا۔

’واقعے والی رات ہارون دکان پر ہی رک گیا تھا، اور ہمیں معلوم کہ تینوں کو ان کی دکانوں سے اٹھایا گیا یا کسی دوسری جگہ سے۔‘

انہوں نے کہا کہ لاشیں ملنے کے بعد کسی نے موبائل فون پر کال کر کے اطلاع دی کہ مقتولین میں ان کا بھتیجا ہارون بھی شامل ہے۔ 

ان کے خیال میں تینوں مقتولین کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔

نصیب دراز نے افسوس کا اظہار کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے چھ روز گزر جانے کے باوجود ان کے دھرنے کا نوٹس نہیں کیا جا رہا۔

’ ہم مقتولین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں کیونہ تینوں افراد اپنے اپنے خاندانوں کے واحد کفیل تھے اور روزی روٹی کمانے کی غرض سے میر علی بازار گئے ہوئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 میر علی پولیس کی تفتیش کے نتیجے میں ابھی تک کوئی اغوا اور تہرے قتل سے متعلق حقائق سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ 

اس واقعے کے حوالے سے بنوں پولیس کے ترجمان پیر نصیب شاہ کا کہنا تھا کہ واقعہ شمالی وزیرستان میں ہوا ہے تو وہاں کی پولیس اس بارے میں موقف دے سکے گی۔ 

اسی حوالے سے شمالی وزیرستان پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ضلعے کی پولیس نے اس حوالے سے مقدمہ درج کیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ یہ تینوں مقتولین سونے چاندی کے کارباور سے وابستہ تھے اور جس رات یہ واقعہ ہوا اسی رات یہ تینوں ایک ہی دکان میں موجود تھے، لیکن وہاں کے چوکیدار نےدوران تفتیش بتایا  کہ 11 بجے کے بعد یہ وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔

’چوکیدار کے مطابق اسے چیخنے چلانے کی آواز نہیں آئی بلکہ دکان کے باہر پہلے سے موجود موٹر سائیکل بھی نہیں تھی۔‘

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ تینوں تاجروں کو ان کی دکانوں سے پانچ چھ کلومیٹر دور لے جا کر الگ الگ مقامات پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

مقتولین کے موبائل فون ریکارڈ کے مطابق انھوں نے آخری کال بنوں کے ایک شخص کو کی تھی، جو پولیس کے مطابق اس وقت اسلام آباد میں موجود تھا۔

پولیس اہلکار نے تہرے قتل میں شدت پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے امکان سے متعلق کہا کہ تفتیش مکمل ہونے پر ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ تہرے قتل کی تفتیش کو منطقی نتیجے تک پہنچایا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان