کابل میں پتنگ بازی کا شوق ’سو سال‘ سے بھی پرانا

افغانستان بالخصوص کابل میں پتنگ بازی صرف شوق نہیں بلکہ پاکستان اور انڈیا میں بسنت کی طرح ایک رنگین ثقافت بن چکی ہے۔

افغانستان بالخصوص اس کے دارالحکومت کابل میں پتنگ بازی صرف شوق نہیں بلکہ پاکستان اور انڈیا میں بسنت کی طرح ایک رنگین ثقافت بن چکی ہے، جس کا چرچہ افغان فلموں سے لے کر ہالی وڈ میں بھی نظر آتا ہے۔

معاشی بدحالی کے باوجود کابل کے پرانے شور بازار میں 30 سے زیادہ پتنگوں کی دکانیں ہیں جن میں سے پانچ چھ ہول سیل کی ہیں، جہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ پتنگیں خریدنے آتے ہیں۔

افغانستان میں پتنگ بازی کا کوئی خاص موسم نہیں اور ہر علاقے کے باسی اپنے حساب سے پتنگوں کا شوق پورا کرتے ہیں۔ 

کابل کے محمد رشاد شہر کی ایک پہاڑی پر 15 سال سے پتنگ بازی کرتے آ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ضروری کام نہ ہو تو وہ ہر جمعے کو یہاں آتے ہیں۔

’بہار کے موسم میں پتنگ بازی زیادہ ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں لوگ اس چوٹی پر تیز ہواؤں کی وجہ سے کم آتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران ان کی تین پتنگیں کٹ گئیں جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کی کبھی پانچ، کبھی 10 اور کبھی کبھی تو 20 پتنگیں تک کٹ جاتی ہیں۔

زڑگے شور بازار میں 43 سال سے پتنگیں بیچ رہے ہیں۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے۔

زڑگے کے مطابق افغانستان میں پتنگ بازی کی تاریخ سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں پتنگ بازی برصغیر سے آئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں سب سے پہلے پل خشتی مسجد کے پیچھے محمد قمری مارکیٹ میں پتنگوں کا کام شروع ہوا پھر یہ کابل شہر میں پھیل گیا۔

زڑگے کے مطابق اس کام میں ان کے دادا کاکا مرزا کا بڑا نام تھا، جو اس کام میں جدت لائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عام لوگوں نے بھی پتنگ بازی کے فروغ میں کردار ادا کیا اور کھلے میدانوں میں پتنگ بازی کے مقابلے ہونے لگے، یہاں تک کے اسے اولپمکس میں شامل کر لیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر پتنگیں کابل ہی میں بنتی ہیں البتہ تھوڑا بہت سٹاک پاکستان سے بھی آتا ہے۔

زڑگے نے مزید کہا کہ پتنگ بازی کے لیے آٹھ انگلش اور 10 انگلش کے نام سے تار بہت مشہور تھے، وہ سب کابل شہر کے اندر بنتی تھیں۔

’پاکستان کے علاقوں لاہور، فیصل آباد اور پشاور وغیرہ میں بھی یہ کیمیکل والی تاریں بنتی ہیں لیکن جو مزہ ہماری تاروں میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو افغان بیرون ملک گئے وہ افغان تاریں اور ثقافت ساتھ لے کر گئے۔ انہوں نے دوسرے ملکوں میں اس شوق کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل