اقوام متحدہ کے پاکستان کے بارے میں انسانی امداد کے رابطہ کار جولین ہارنیس نے کہا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں صورت حال مشکل ہوتی جا رہی ہے اور اگر مزید مالی وسائل نا ملے تو آئندہ ماہ کے وسط سے متاثرین کو خوراک کی فراہمی جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
جولین ہارنیس نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عالمی تنظیم نے سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کی مدد اور بحالی کے کاموں کے لیے لگ بھگ 82 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی تھی جس میں سے صرف 26 کروڑ کے لگ بھگ ڈالر ملے جو کل اپیل کی 30 فیصد رقم بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئندہ ہفتوں میں عالمی ادارہ برائے خوراک سمیت اقوام متحدہ کی ایجنسیاں خوراک کی کلیدی فراہمی جاری نہیں رکھ سکیں گی۔‘
جولین ہارنیس نے کہا کہ ’وسائل کی کم دستیابی بڑا مسئلہ ہے۔‘ اقوام متحدہ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ان کے بقول یہ صورت حال پریشان کن ہے۔
رواں سال جولائی میں پاکستان کو غیر معمولی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جن میں لگ بھگ 1600 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیلاب سے سب سے زیادہ پاکستان کے دو صوبے سندھ اور بلوچستان متاثر ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی ذیلی تنظمیوں کے نمائندوں نے اس سے قبل جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ کی جس میں عالمی ادارہ برائے خوراک ’ڈبلیو ایف پی‘ کے پاکستان میں ڈائریکٹر کرس کائے نے کہا کہ ’ہمیں بہت شدید بحران کا سامنا ہے۔‘
کرس کائے کا کہنا تھا، ’ہمارے پاس موجود مالی وسائل 15 جنوری کو ختم ہو جائیں گے اور ہم (اس کے بعد) امدادی کام جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘
اقوام متحدہ میں پاکستان کے ادارے کا کہنا ہے کہ اب جب کہ سیلاب زدہ علاقوں میں سردی بڑھ رہی ہے، متاثرہ علاقوں میں زراعت اور معمولات کی بحالی سمیت گھروں کی تعمیر کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
عالمی تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے مطابق صوبے میں اب بھی لگ بھگ دو لاکھ افراد بے گھر ہیں اور جو خاندان واپس بھی گئے ہیں اُن کے پاس زندگی گزارنے کے لیے بنیادی ضروریات نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ سیلاب کے سبب متاثرہ علاقوں میں 84 لاکھ سے 91 لاکھ تک افراد خطے غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔