عبدالرحمٰن جن کا خاندان سرحد کے اس پار رہ گیا

1971 کی جنگ کے بعد جب سکردو کے عبدالرحمٰن واپس پہنچے تو سرحد پر نئی لکیریں کھنچ گئی تھیں اور ان کا گھر اس پار چلا گیا تھا۔

عبدالرحمٰن (بائیں) کو زندہ رہنے کا ہنر آ گیا ہے (عاشق فراز)

وہ 70 سال کی دہلیز پہ قدم رکھ چکا ہے، آنکھوں پر موٹے چشمے لگ گئے ہیں، سر اور داڑھی برف کی طرح سفید ہو گئی ہے، لیکن پھرتی اور توانائی بلا کی ہے۔

ماں باپ اور خاندان کی جدائی اور اکیلا پن اس کو اندر اندر سے کھا گیا ہے مگر زندہ رہنے کا ہنر اسے آ گیا ہے۔ دن بھر وہ اپنے مختصر سے ہوٹل میں مصروف رہتا ہے اور اس کے گاہک ہی اس کے دوست اور سکون کا ذریعہ ہیں۔

اس کا یہ ہوٹل بڑے پائے، چھوٹے پائے، چاول گوشت اور بلے کے لیے بڑا مشہور ہے۔ جگہ مختصر سی ہے مگر گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے۔ اس کے کھانوں کا ذائقہ شاندار ہے اور کیوں نہ ہو عبد الرحمٰن بڑی محنت جو کرتے ہیں۔ صبح تڑکے وہ ہوٹل پہنچ جاتا ہے اور مصالحہ بگھارنے میں لگ جاتا ہے۔ اس نے کبھی بھی پیکٹوں کے مصالحے استعمال نہیں کیے بلکہ اصلی ثابت مصالحے لاکر کوٹ کوٹ کر اس کا پاؤڈر بناتا ہے اور پھر پائے اور دیگر سالن کی دیگچی میں ایک خاص مقدار کے مطابق ڈال دیتا ہے۔

تنور کی گرم گرم روٹیاں اور مونگر (کٹورا نما برتن) میں مصالحہ کی خوشبو سے بھرپور شوربہ جس کے بیچوں بیچ بے حد پکا ہوا پائے کا گوشت پڑا ہو تو کون انگلیاں چاٹنے پر مجبور نہیں ہو گا۔ لیکن یہ عبد الرحمٰن سےبہت پہلے کی کہانی ہے جس کے پلاٹ کی وہ صرف ایک کڑی ہے۔

1948 سے کچھ عرصہ پہلے روزی اور غلام حسین عرف پہلوان دو بھائی تورتک گاؤں سے روزگار کی تلاش میں سکردو آئے۔ تورتک کا گاؤں ضلع گانچھے بلتستان کے آخری سرحدی گاؤں فرانو سے آگے جاکر دریائے نوبرا کے کنارے کنارے موجود ہے لیکن تورتک کے علاوہ ٹقشی اور چولونکھا کا گاؤں بھی 1971 کی جنگ کے دوران بھارت کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔

سکردو میں دونوں بھائیوں نے پرانا بازار جو کہ یہاں کا قدیمی بازار تھا، وہاں ایک کچی دکان میں چائے خانہ کھولا جو بعد ازاں پہلوان ہوٹل کہلایا۔ روزی بڑا تھا لہٰذا کام کاج کی زیادہ تر ذمہ داری اس کے سر تھی، لیکن غلام حسین جو پہلوان کے نام سے مشہور ہوا اس کا ڈھب بھی نرالا تھا۔

وہ کوئی پہلوانی سے منسلک نہیں تھا بلکہ یار دوستوں کی محبت تھی کہ وہ اسے پہلوان کہتے تھے۔ اس کچے سے ہوٹل میں وہ دونوں کام پر جت گئے اور ابتدا نمکین چائے اور شکر کی چائے بنانے سے کی۔ سکردو اس وقت ایک گاؤں کی شکل میں تھا، کچی پکی دکانوں کا ایک چھوٹا سا بازار موجود تھا جبکہ دوسرا کوئی ہوٹل تھا ہی نہیں۔ ایسے میں روزی اور پہلوان نے اس کام کا آغاز کیا۔

عبد الرحمٰن کے موجودہ ہوٹل کی ایک دیوار پر فریم شدہ دو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ٹنگی ہوئی ہیں جن میں سے ایک روزی اور پہلوان کا مشترکہ فوٹو ہے۔ تصویر میں روزی بڑا بانکا سجیلا نوجوان نظر آتا ہے۔ اس کے سر پر سفید رنگ کی پگڑی جس کی قلغی اوپر کو اٹھی ہوئی ہے۔

چہرے پر ترشی ہوئی مونچھیں جن کی نوکیں اوپر کو مڑی ہوئی ہیں۔ کالے رنگ کا اچکن اور سفید قمیض کے ساتھ گھیردار شلوار اور چپل۔ جبکہ پہلوان اس سے کم عمر سر پر جناح کیپ، سفید کپڑوں کے اوپر کوٹ زیب تن کیے ایک شان سے بیٹھا ہے۔

ان کا ہوٹل ’پہلوان کا ہوٹل‘ کہلایا، جس میں روزی اور غلام حسین باری باری ڈیوٹی دیتے اور درمیان میں اپنے گاؤں تورتک بھی جاتے کیوں کہ گھر بار، کھیتی کھلیان سب کچھ گاؤں میں تھا۔

روزی کے بیٹے عبدالرحمٰن نے کچھ عرصہ تو باپ اور چچا کے ساتھ گزارا مگر اس کا دل نہیں لگا۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راولپنڈی نکل گیا اور وہاں سے کچھ عرصہ لاہور جاکر گزارا اور پھر آخر میں کراچی جاکر پناہ لی۔

وہاں کبھی کسی ہوٹل میں برتن مانجھ لیتا تو کہیں بیراگری کی، یوں روز کی کمائی روز کا خرچہ چلتا رہا۔ ہاں اس نے ایک کام ضرور کیا وہ کچھ پکانا بھی سیکھ گیا۔ عبدالرحمٰن روشنیوں کے شہر کراچی میں مست دن گزار رہا تھا کہ اچانک حالات نے بڑی کروٹ لی۔

مشرقی پاکستان سے محرومی کی آوازیں اٹھیں، ارباب بست و کشاد نے دل ماندگی کو دور کرنے کے بجائے توپ و تفنگ چلایا یوں 1971 کا سانحہ ہوا۔ عبدالرحمٰن کو سکردو اور تورتک کی کوئی خبر نہیں تھی اس وقت نہ موبائل اور نہ ہی فون کی سہولت موجود تھی، خط بھیج دیں تو بھی مہینوں بعد جواب آتا تھا۔ حالات بگڑتے گئے اور اچانک ایک دن اس کو کسی جاننے والے کے ذریعے خبر ملی کہ اس کا گاؤں اور قریب قریب کے دو اور گاؤں، ٹقشی اور چولونکھا بھی دشمن کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔

اس افتاد سے ابھی سنبھلنے نہیں پایا تھا کہ معلوم ہوا کہ والد اور چچا سرحدی حالات کے خراب ہوتے ہی ہوٹل بند کر کے گاؤں گئے تھے وہ بھی وہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ درمیان میں لائن آف کنٹرول جو کھینچ گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاچو مہدی، گنگوپی سکردو کا رہائشی ہے۔ وہ 95 سال سے زائد عمر کا ہے، وہ روزی اور پہلوان کے ہوٹل کا نہ صرف گاہک رہ چکا ہے بلکہ ان دونوں بھائیوں سے اس کی دوستی بھی رہی ہے۔ چھوٹے سے قد کاٹھ کا مالک، سر پر روایتی سفید پگڑی، سرخ سفید چہرہ، ستواں ناک اور برف جیسے سفید داڑھی اور دھیمی گفتگو کا عادی۔ کاچو مہدی کی اپنی الگ کہانی ہے وہ مہدی آباد یعنی پرکوتہ کے راجہ خاندان سے ہیں۔

کاچو مہدی کا کہنا ہے کہ روزی اور پہلوان کے ہوٹل میں اس وقت کے صاحب حثیت لوگ چائے پینے آتے تھے اور ایک طرح سے یہ مقامی چوپال تھا جہاں حالات حاضرہ پر گفتگو بھی بڑے پیمانے پر ہوتی تھی۔ کاچو مہدی کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں پہلوان ہوٹل میں دو آنے میں ایک کپ چائے ملتی تھی۔ انہوں نے ماضی کو کھنگال کر یادیں تازہ کئی اور اپنے کئی ساتھیوں کے نام گنوائے جو روزی اور پہلوان کے ہوٹل نہ صرف گاہک تھے بلکہ دوست بھی تھے۔

عبدالرحمٰن کا لنگوٹیا یار اور ہارمونیم کا استاد ماسٹر عبداللہ بھی روزی اور پہلوان ہوٹل کا تذکرہ بڑے ذوق و شوق سے کرتا ہے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ اور دوسرے ساتھی بھی کبھی کبھار پہلوان ہوٹل چائے پینے جاتے تھے کیونکہ روز روز جانے کے لیے جیب کہاں اجازت دے دیتی تھی۔ ماسٹر عبداللہ کے مطابق اس وقت ایک روپے میں چھ کپ چائے ملتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روزی اور پہلوان چائے کے ساتھ ساتھ دیسی کیک اور شکر پارے بھی بناتے تھے یوں اس وقت چائے اور کیک کھانا ایک دعوت شیراز اڑانے کے مترادف تھا۔‘

عبدالرحمٰن 1982 میں کراچی سے سکردو لوٹ آیا تو دنیا بدل چکی تھی، اس کے ماں باپ، بہن بھائی اور عزیز و اقارب سب تورتک رہ گئے تھے اور بیچ میں سرحدی لائن سد راہ تھی جس کو عبور کرنا اب اس کے بس میں کہاں تھا۔ عبدالرحمٰن نے تو کچھ عرصہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگایا پھر سب کچھ تقدیر کی مرضی سمجھ کر نئے سرے سے زندگی کی شروعات کی۔

کراچی میں وہ کچھ پکانا سیکھ گیا تھا اوپر سے باپ اور چچا کا بھی یہی کام رہا تھا لہٰذا اس نے بھی چھوٹے پیمانے پر ایک مختصر سی دکان میں چائے اور کھانا پکانا شروع کیا۔

اس کے والد اور چچا کے دوست یار آنا شروع ہوئے، ان کی باتوں سے ایک طرف تو گئے دنوں کی یادیں تازہ ہوتی رہتی تھی لیکن دوسری طرف عبدالرحمٰن کا دل کباب ہو جاتا جب اس کے والد، چچا اور گھر والوں کا تذکرہ چھڑ جاتا تھا۔ سکردو میں خاندان کا کوئی فرد تو رہا نہیں تھا لہٰذا عبدالرحمٰن نے سکردو والوں کو اپنا خاندان سمجھا اور اپنے دوست یار بنائے، جن کے ساتھ تعلق ابھی بھی اسی طرح جوان ہے جو ابتدائی دنوں میں تھا۔

اس کے دوستوں میں ماسٹر عبداللہ، محمد عباس کھرگرونگ، اقبال نسیم، وزیر شریف، محمد افضل، فرمان مرغوب، غلام حسین بلغاری، کاکا محبوب، نسیم بیگ، محمد رضا، ابراہیم پٹول، اجنگ مہدی، غلام علی حیدری اور کئی دوسرے۔

انہی دوست احباب کی بدولت عبدالرحمٰن کو بلتی موسیقی اور شاعری کی طرف بڑی رغبت ہوئی اور وہ دوستوں کی محفلوں میں نہ صرف شریک ہوا بلکہ ان کی مجبوری بھی بن گیا۔ یوں جب بھی کسی محفل میں راجہ محمد علی شاہ صبا، غلام حسین بلغاری اور عباس کھرگرونگ کی غزلیں گائی جاتی تھی، جہاں کہیں ماسٹر عبداللہ کی فنکارانہ انگلیاں ہارمونیم میں سر بکھیر دیتی اور جہاں فرمان مرغوب کی لہردار آواز گائیگی کا جادو جگاتی، وہاں عبدالرحمٰن پروانے کی مانند پہنچ جاتا تھا۔ اس کا دکھ اس کی آنکھوں سے ابل رہا ہوتا تھا جب وہ محفل میں دیوانہ وار تالیاں پیٹتا تھا۔

اس نے یہی سکردو میں گھر بسایا اور زندگی کے دکھ سکھ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ اس طرح وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ ریڈیو پاکستان سکردو دونوں اطراف میں ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔ کبھی کبھار جب اس کے تورتک میں موجود دوست احباب اور رشتہ داروں کو عبدالرحمٰن کی یاد ستاتی تو وہ ریڈیو سکردو کو خط لکھتے اور بلتی موسیقی کے فرمائشی پروگرام میں کوئی ’ڑگیانگ لو‘ اس کے نام کرتے اور کبھی اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی تو وہ کوئی ’بلتی دیوان‘ ان کی نذر کرتا۔ یوں جذبات اور احساسات کا تبادلہ موسیقی کے سروں کے ذریعے ہوتا رہا جو نہایت لطیف اور تخیل کی بلند پروازی کا کام تھا۔

آخرکار 2015 میں عبدالرحمٰن کو بذریعہ دہلی پھر لداخ اور آخر میں تورتک گاؤں جانے کا موقع ملا۔ اس کے عزیز و اقارب اور دوست یار آس کے استقبال کے لیے گاؤں سے باہر آ کر راستے میں مجسم انتظار بنے بیٹھے ہوئے تھے۔ عبدالرحمٰن کو ایک گھوڑے میں بٹھا کر گاڑیوں کے ایک جلوس میں تورتک گاؤں لے جایا گیا۔

اس کے ماں، باپ اور چچا عرف پہلوان سب مٹی ہو گئے تھے، ان کی آنکھیں عبدالرحمٰن کو دیکھنے کی حسرت لیے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی تھیں۔ عبدالرحمٰن ان کے قبروں کی لوحوں پر سر ٹکائے حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا رہا۔

ایک بھائی اور دو بہنیں حیات تھیں جن کے چہروں پر وہ اپنے باپ، ماں اور چچا کے نقش ڈھونڈتا رہا۔ وہ تورتک دو مہینے ٹھہرا اور پھر اپنے سکردو کی راہ لی جہاں آج بھی اس کے دوست یار روز اس کے ہوٹل میں جمع ہوتے ہیں اور وہ ان سے ہنسی مذاق میں اپنا غم اڑا دیتا ہے، یوں زندگی کا سفر جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ