پاکستانی شہری کے خلاف درخواست: عدالت نے بچے پولش ماؤں کے حوالے کر دیے

ہائی کورٹ نے بدھ کو اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دونوں بچوں کو مستقل طور پر پولش ماؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

پولینڈ کی دونوں خواتین کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے بچوں سے ملاقات کا ایک منظر (حسین احمد)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولینڈ کی دو خواتین کی جانب سے مشترکہ سابق پاکستانی شوہر کے خلاف بچوں کی حوالگی کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے بچے ماؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔

ہائی کورٹ نے بدھ کو اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دونوں بچوں کو مستقل طور پر پولش ماؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے دونوں بچوں کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’دونوں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ پولینڈ جائیں گے۔‘

عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’بچوں کی مائیں انہیں والد سے ملاقات میں سہولت دیں گی۔‘

اس سے قبل منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں بچوں کو عارضی طور پر ان کی ماؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے منگل کو کیس کی سماعت کے بعد حکم دیا تھا کہ دونوں بچوں کو پولینڈ کے سفارت خانے میں رکھا جائے اور انہیں کل (بدھ کو) دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے، جہاں مزید دلائل سن کر فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت نے دونوں بچوں کے پاسپورٹس اور خواتین کے سابق پاکستانی شوہر کے پاسپورٹ بھی ایف آئی اے کے پاس جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت بدھ (28 دسمبر) تک ملتوی کر دی تھی۔

کیس ہے کیا؟

پولش خواتین کے وکیل بیرسٹر عقیل ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بنیادی طور پر پولینڈ کے سفارت خانے کے وکیل ہیں، جہاں سے دونوں خواتین نے ان کا نمبر حاصل کر کے انہیں پاور آف اٹارنی بھیج کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کروائی۔

بیرسٹر عقیل ملک نے واقعے کی تفصیل کچھ ہوں بتائی کہ گذشتہ برس اگست میں پاکستانی شہری سلیم محمد اپنی 11 سالہ بیٹی اور نو سالہ بیٹے کو پولینڈ سے سیر کروانے کے بہانے دو ہفتے کے لیے پاکستان لائے لیکن واپسی کے ٹکٹ کینسل کروا دیے۔

عقیل ملک کے مطابق: ’بیٹے احمد محمد کی والدہ اعزا نے جب اپنے سابق شوہر سے رابطہ کیا تو سلیم نے کرونا کا بہانہ بنا دیا اور مزید بیس پچیس دن گزار دیے۔ پھر انہوں نے دوبارہ ٹکٹ بک کروا کر پولش خاتون کو مطلع کیا کہ بچے کے ہمراہ واپس آ رہا ہوں، دونوں خواتین وہاں ایئرپورٹ پر انتظار کرتی رہیں جبکہ سلیم نے اپنا نمبر بند کر دیا جس کے بعد سے خواتین کو اپنے بچوں کی کچھ خبر نہ ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل نے مزید بتایا کہ اس دوران خواتین نے پولینڈ میں پاکستانی سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا لیکن سنوائی نہ ہوئی تو انہوں نے اسلام آباد میں موجود پولینڈ کے سفارت خانے سے مدد کی درخواست کی۔

بیرسٹر عقیل نے مزید بتایا کہ رواں برس ستمبر میں خواتین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں ایف آئی اے کو بھی فریق بنایا گیا جس کے بعد عدالتی حکم پر آمنہ بیگ کی سربراہی میں ایف آئی اے کی ٹیم نے سلیم محمد کو ان کے پاسپورٹ نمبرز اور سفری ریکارڈ سے تلاش کر لیا۔

سلیم محمد سیالکوٹ کے رہائشی اور اسلام آباد میں موجود تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے سلیم اور دونوں بچوں کے موجودہ پتے کی تفصیلات ملیں، جس کے بعد عدالت نے بچوں کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے ویمن کرائسز سینٹر منتقل کیا، جہاں وہ چار پانچ دن رہے اور آج وہاں سے بچوں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔‘

بیرسٹر عقیل نے بتایا کہ اس دوران پولش خواتین جوہانہ اور اعزا کو بچوں سے متعلق آگاہ کر دیا گیا تو وہ آج (27) دسمبر کو دو دن کے لیے پاکستان پہنچی ہیں تاکہ اپنے بچوں کو واپس لے جا سکیں۔ پولش عدالت کے حکم کے مطابق بھی بچوں کی قانونی سپردگی ماؤں کے پاس ہے کیونکہ دونوں خواتین سے سلیم کی علیحدگی ہو چکی ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کیا ہوا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں آج ہونے والی سماعت کے دوران پولش خواتین جوہانہ اور عزا، ان کے مشترکہ سابق پاکستانی شوہر سلیم محمد اور پولینڈ سفارت خانے کے حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سلیم محمد نے بچوں کو پاکستان لانے سے متعلق اجازت نامہ عدالت کے سامنے پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ ’میں اگست 2021 میں دونوں بچوں کی ماؤں سے 18 دن کی قانونی اجازت لے کر انہیں پاکستان آیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہب کی وجہ سے سابق بیویوں سے ان کے تعلقات خراب ہوئے کیونکہ وہ بچوں کو چرچ لے جاتی تھیں۔

سلیم محمد نے مزید کہا: ’پولینڈ میں میری بہت بڑی فوڈ بزنس کی چین ہے اور میں ان دونوں خواتین کی بہت مدد کرتا تھا۔ 2012 میں مجھے پولینڈ کی شہریت ملی ہے جبکہ بچوں کی خاطر نیشنلٹی بھی کینسل کروا سکتا ہوں۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ پولینڈ کی شہریت رکھ لیں وہاں جاکر پھر بچوں کی تربیت کرلیں۔‘ اس پر سلیم محمد نے جواب دیا کہ ’وہاں مسجد میری رہائش سے تین سو کلومیٹر دور ہے۔‘ جس پر عدالت نے کہا کہ ’اتنے تو ریسٹورنٹس ہیں آپ مسجد گھر کے قریب بھی بنوا لینا۔‘

دوران سماعت وکیل عقیل ملک نے عدالت کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی شوہر مسلمان جبکہ ان کی پولش بیویاں مسیحی ہیں۔خاتون اعزا نوا سے بیٹا محمد احمد ہے جبکہ دوسری خاتون جوہانہ محمد سے بیٹی سعدیہ ہے۔

 عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا دونوں خواتین اپنے سابق شوہر کے ساتھ بات کرنا چاہتی ہیں؟‘ تاہم خواتین نے سلیم محمد سے ملنے یا بات کرنے سے انکار کردیا۔

اب عدالتی حکم پر بچے اپنی ماؤں کے ساتھ آج پولینڈ ایمبیسی میں قیام کریں گے اور بدھ کر دوبارہ عدالت میں پیش ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان