انڈیا کا دھنستا شہر جہاں نقل مکانی جاری ہے

مکانوں میں دراڑیں پڑنے کے بعد ہمالیائی قصبے میں تقریباً 200 افراد کو نکالا جا چکا ہے۔

بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے جوشی متھ میں آٹھ جنوری، 2023 کو ایک رہائشی اپنے مکان کی دیوار پر شگاف دکھا رہا ہے (اے ایف پی)

انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر جوشی متھ کے رہائشیوں نے اپنے شہر کے دھنسنے کی وجہ بجلی اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کو ٹھہرایا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو دوبارہ آباد کرے اور انہیں نئے مکانات فراہم کرے جنہوں نے شہر میں اپنی جائیدادیں کھو دی ہیں۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے دورے کے ایک دن بعد رہائشیوں نے گذشتہ روز اپنا احتجاج جاری رکھا۔

انہوں نے نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) کے تپوون-وشنوگڑھ پاور پروجیکٹ کو ’ناقابل تلافی‘ نقصان کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔

مکانوں میں دراڑیں پڑنے کے بعد ہمالیائی قصبے میں تقریباً 200 افراد کو نکالا جا چکا ہے۔

روئٹرز کے مطابق بھارتی حکام نے ہمالیائی قصبے جوشی متھ میں تقریباً 200 لوگوں کو ان کے گھروں سے منتقل کر دیا ہے۔

ایک اہلکار نے ہفتے کو بتایا کہ اس علاقے میں جو زائرین اور سیاحوں کے لیے مقبول ہے، سینکڑوں عمارتوں میں زمین کی منتقلی کی وجہ سے دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

برسوں سے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جوشی متھ اور اس کے آس پاس ہائیڈرو پاور پراجیکٹس سمیت بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام زمینی سطح کے دھنسنے یا آباد ہونے کا باعث بن سکتے ہیں۔

سرکاری اہلکار ہمانشو کھرانہ نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جوشی متھ میں 600 سے زیادہ مکانات میں دراڑیں پڑنے کی اطلاع ملی، جس سے مقامی حکام نے 193 کے قریب رہائشیوں کو ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز سمیت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر مجبور کیا ہے۔

کھرانہ نے کہا، جو چمولی ضلع کے ضلع مجسٹریٹ ہیں جہاں جوشی مٹھ واقع ہے کہ ’انخلا کا عمل جاری ہے اور مختلف اداروں کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم وجہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے اور صورت حال پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

چمولی ضلعے میں فروری 2021 میں ایک طوفانی سیلاب نے 200 سے زیادہ افراد کو ہلاک اور دو ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹوں کو بہا دیا، جس سے کچھ سائنس دانوں کو تشویش کا سامنا کرنا پڑا جو موسمیاتی تبدیلی کا مطالعہ کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے۔

شمالی اتراکھنڈ ریاست میں تقریباً 17 ہزار افراد پر مشتمل ایک قصبہ، جوشی متھ ہندو اور سکھوں کی عبادت گاہوں کی زیارتوں کا ایک گیٹ وے ہے، اور ہمالیہ کے کچھ حصوں کا سفر کرنے والے سیاحوں میں مقبول ہے۔

جوشی متھ بچاؤ سنگھرش سمیتی کے کنوینر اتل ستی نے، جو حکومتی بے عملی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، کہا کہ مقامی باشندے مہینوں سے اس مسئلے کو اٹھا رہے تھے۔

ستی نے کہا کہ ’انتظامیہ اپنی نیند سے اس وقت بیدار ہوئی جب حالات سنگین ہونے لگے اور اب انہوں نے امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ ہمارا قصبہ ڈوب رہا ہے اور ہمیں اسے بچانے کی ضرورت ہے۔‘

اتراکھنڈ حکومت کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ مٹیگیشن سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیوش روتیلا نے کہا کہ زمین کے نیچے چلے جانے کا امکان ٹوٹے ہوئے آبی ذخائر کا باقی حصہ تھا - چٹان کی ایک زیر زمین تہہ جس میں پانی موجود ہے۔

روتیلا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’متعلقہ حکام اس پر کام کر رہے ہیں اور مسئلے پر قابو پانے کا واحد طریقہ پانی کے بہاؤ کو چینلائز کرنا ہے۔‘

احتجاج کی قیادت کرنے والی مہم کے کنوینر اتل ستی نے کہا کہ حکومت نے ترقیاتی پروجیکٹ کو صرف اس وقت روکا جب یہ قصبہ تباہی کے دہانے پر تھا۔

’ہم نے برسوں پہلے خبردار کیا تھا کہ این ٹی پی سی کا کام اس شہر کو ڈبونے والا ہے۔ کسی نے دھیان نہیں دیا۔‘

اتوار کو وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے صورت حال کا ایک اعلی سطحی جائزہ اجلاس طلب کیا۔

وزیر اعظم نے صورت حال کے بارے میں مقامی حکام کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا۔

اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری ایس ایس سندھو نے جائزہ اجلاس کو بتایا کہ زمینی سطح کے جائزے کے بعد یہ طے کیا گیا ہے کہ تقریباً 350 میٹر چوڑی زمین کی ایک پٹی متاثر ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دہرادون کے سماجی کارکن انوپ نوٹیال نے الزام لگایا کہ چمولی ضلع انتظامیہ ایک ہفتے میں صرف 68 کنبوں کو نکالنے اور 1271 لوگوں کی عارضی آبادکاری کا انتظام کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ جس سست رفتاری سے انخلا اور آبادکاری پر کام کر رہی ہے وہ اس ’ہنگامی صورت حال‘ میں کافی نہیں ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ممبران صورت حال کا جائزہ لینے اور اتراکھنڈ حکومت کو مشورہ دینے کے شہر کا دورہ کرنے والے ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست میں مرکز کو یہ ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں جوشی متھ کے ڈوبنے کی جانچ اور متاثرہ کنبوں کی آبادکاری کے لیے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اے ایف پی کے مطابق بہت سے مقامی لوگوں کو سخت سردی میں کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی ہفتوں اور بعض معاملات میں مہینوں سے عمارتوں اور سڑکوں میں دراڑوں کے بارے میں حکام کو متنبہ کر رہے تھے۔

ایک خاتون ونیتا دیوی نے بتایا کہ اکتوبر میں ان کی دیواروں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں جو اب اتنی چوڑی ہو گئی ہیں کہ ان کا مکان بھی گرنے کے دہانے پر ہے، جیسا کہ ان کے پڑوس کے 25 دیگر مکانا میں ہوا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ اب وہ کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟'‘

ایک اور رہائشی سنینا نے کہا، 'ہم نے اپنی زندگی کی کمائی سے یہ مکان بنایا تھا، لیکن اب یہ ختم ہو گیا ہے۔‘

یاتری

سطح سمندر سے تقریباً 1800 میٹر (6000 فٹ) کی بلندی پر واقعے جوشی متھ ہمالیہ میں ہر سال ہزاروں یاتریوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

یہ قصبہ ایک اہم بھارتی فوجی اڈے اور چین کے ساتھ متنازعہ سرحد تک ایک سٹریٹجک سڑک بھی رکھتا ہے۔

چار کلومیٹر طویل کیبل کار کے ستون، جو ایشیا کے سب سے بڑی کیبل کار میں سے ایک ہے، جو اولی سکی ریزورٹ کی طرف جاتا ہے، بھی مبینہ طور پر نقصان اٹھا رہا ہے۔

یہ خطہ زلزلوں کا شکار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں ماہرین کی جانب سے متعدد آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا الزام ماہرین نے گلیشیئرز کے پگھلنے اور غیر معمولی تعمیرات پر عائد کیا ہے۔

تعمیراتی منصوبوں میں ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ساتھ ساتھ چینی سرحدی علاقے اور ہندو زیارت گاہوں تک فوجی رسائی کو بہتر بنانے والی ایک بڑی سڑک بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات