2022 میں جنوبی ایشیا کی انتہا پسندی کا منظرنامہ

دہشت گردی نہ صرف 2022 میں جنوبی ایشیا میں برقرار رہی بلکہ نظریاتی اور آپریشنل دونوں لحاظ سے پھیلی اور متنوع ہوئی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف امرتسر میں 29 نومبر 2022 کو احتجاج (اے ایف پی)

افغانستان سے امریکی انخلا، امریکہ اور چین کی عالمی دشمنی اور کووڈ 19 کے بعد کی معیشتوں میں سستی نے دہشت گردی کو جنوبی ایشیائی ریاستوں کی ترجیحات کی درجہ بندی میں نیچے دھکیل دیا ہے۔

تاہم دہشت گردی نہ صرف 2022 میں جنوبی ایشیا میں برقرار رہی بلکہ نظریاتی اور آپریشنل دونوں لحاظ سے پھیلی اور متنوع ہوئی۔ نتیجتاً 2022 میں جنوبی ایشیا کے انتہا پسندانہ رجحانات بکھرے ہوئے اور پیچیدہ نظر آئے۔

2022 کا سب سے زیادہ نمایاں رجحان جنوبی ایشیا کی انتہا پسندی کے منظرنامے میں افغانستان کی صورتِ حال تھی۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کا اثر نہ صرف پورے جنوبی ایشیا میں محدود اور ناہموار تھا بلکہ یہ بڑی حد تک غیر محسوس تھا۔

یعنی یہ طالبان کے لیے سوشل میڈیا پر نظریاتی ہمدردی کی ایک محدود لہر اور فتح کو دوبارہ زندہ کرنے کی فاتحانہ داستان تک محدود تھا۔ خطے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے علاوہ کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے طالبان کے شورش کے ماڈل کی تقلید نہیں کی۔

2022 میں جنوبی ایشیا میں بنیاد پرست نظریات جہادی عسکریت پسندی سے ہندوتوا انتہاپسندی کے نسلی قوم پرست بیانیے تک پھیل گئے۔ 2022 میں ہندوتوا کی ظاہری ترقی انڈیا سے باہر سائبر اور فزیکل ڈومینز میں دو بڑے رجحانات کے ساتھ ہوئی۔

ایک طرف ہندوتوا کے بنیاد پرستوں نے ہندوتوا پر تنقید کرنے والوں کو ہراساں کیا اور ڈرایا۔ مثال کے طور پر 2022 میں بنیاد پرست ہندو گروپوں نے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ان ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو دھمکی آمیز خطوط اور ای میلز لکھیں جنہوں نے آبادی، محبت اور زمینی جہاد جیسے سازشی نظریات پر مبنی ہندوتوا کی اقلیت مخالف بیان بازی پر تنقید کی۔

آسٹریلیا میں، مثال کے طور پر 13 اکیڈمک فیلوز نے انڈین ہائی کمیشن کی مداخلت اور ان کے تحقیقی کام کو سنسر کرنے کی کوششوں کی وجہ سے میلبورن یونیورسٹی کے آسٹریلیا انڈیا انسٹی ٹیوٹ سے استعفیٰ دے دیا۔

اسی طرح، ستمبر میں ’Dismantling Global Hindutva Conference‘ کے منتظمین، جن میں 53 سے زیادہ یونیورسٹیوں کے شرکا شامل تھے اور زیادہ تر امریکی تھے، کو اس تقریب سے بیک آؤٹ کرنے کے لیے ہزاروں ای میلز اور خطوط بھیجے گئے۔ اگست 2022 میں انڈین بزنس ایسوسی ایشن کو نیو جرسی میں دو مرتبہ انڈین ڈے پریڈ کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پوسٹروں پر مشتمل بلڈوزر لانے پر سرزنش کی گئی۔

اسی طرح لیسٹر، یو کے اور کینیڈا میں ہندو بنیاد پرستوں کی طرف سے شروع ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور جھڑپوں نے انڈیا سے باہر ہندوتوا کی ترقی کی عکاسی کی ہے۔

دوسری طرف نفرت پر مبنی جرائم میں ملوث ہندوتوا کے بنیاد پرستوں کو انڈیا میں آئیکون اور ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وشال سود، آسٹریلیا میں زیر تعلیم ایک انڈین طالب علم اس کی ایک مثال ہے۔ سکھ برادری کے ارکان پر حملوں کے سلسلے میں سود کو گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں ملک بدر کر دیا گیا۔ انڈیا واپسی پر اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔

اسی دوران 2022 میں ہندوتوا اور جہادی انتہاپسندی کے نظریاتی بیانیے کے مخالف تنوع کو بھی دیکھا گیا۔ ہندوتوا کے نظریاتی دائرے کے اندر جنم لینے والی ’Trads vs Raita‘ کی بحث اس رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ Trads کی اصطلاح سے مراد ہندوتوا تحریک کی ایک آن لائن ذیلی ثقافت ہے جو انتہائی بنیاد پرست ہے اور مرکزی دھارے میں شامل ہندوتوا کے نظریات اور شخصیات کو انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں نرم سمجھتی ہے اور انہیں ’رائتہ‘ کہتی ہے۔

اسی طرح جہادی عسکریت پسندوں کے درمیان 2022 میں نظریاتی بحثیں طالبان کی امارت اور اسلامک سٹیٹ آف خراسان (ISK) کی خلافت اور علاقائی اورعالمی محاذوں پر دہشت گردی کے نکات کے گرد گھومتی رہیں۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، ISK نے افغانستان میں شرعی حکومت کے قیام کے ان کے دعووں پر سوال اٹھاتے ہوئے طالبان کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

اسی طرح، ISK نے طالبان کی سفارت کاری، خارجہ تعلقات، مغرب اور چین کے ساتھ خاص تعلقات اور طرز حکمرانی پر تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق طالبان ISK کو خارجی (باغی یا غیر قانونی) اور مجرم قرار دیتے ہیں اور اس گروپ کو بے رحمی سے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی اپنی کوشش میں ISK اور طالبان مقامی جہادی گروپوں مثلاً TTP، ترکستان اسلامک پارٹی (TIP) اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU) کی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2022 میں جنوبی ایشیا میں دیگر قابل ذکر رجحانات میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ہائبرڈ عسکریت پسندی اور پاکستان میں طالبان کے نظریاتی جڑواں ٹی ٹی پی کا دوبارہ سر اٹھانا شامل ہے۔

ہائبرڈ یا ’بے چہرہ عسکریت پسندی‘ کشمیر میں ریاست مخالف تشدد کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے جس میں مقامی لوگ شامل ہیں جو AK-47 اسالٹ رائفلز کے بجائے ہلکے ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور حملوں کے بعد آبادیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ہائبرڈ عسکریت پسندی کی گمنام نوعیت کے پیش نظر ہائبرڈ عسکریت پسندوں کو تلاش کرنا اور انہیں ختم کرنا مشکل ہے۔ ہائبرڈ عسکریت پسندی کشمیر میں ریاست مخالف مزاحمت کے تیسرے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

دیگر دو 1990 کی دہائی کی پاکستان کی حمایت یافتہ عسکریت پسندی اور 2014-2019 کا مرحلہ تھا جس میں سوشل میڈیا کا استعمال ہوا اور برہان وانی کو مرکزی ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ دریں اثنا پاکستان میں ٹی ٹی پی کا دوبارہ سر اٹھانا طالبان کی اقتدار میں واپسی کی حمایت کرنے کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی غلط افغان پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے امن مذاکرات نے اس گروپ کو سابقہ فاٹا کے علاقے میں دوبارہ جگہ حاصل کرنے کی اجازت دی۔

اپنی گھٹتی بڑھتی نوعیت کے باوجود دہشت گردی نہ صرف جنوبی ایشیا میں برقرار ہے بلکہ اس نے عملی اور نظریاتی طور پر خود کو پھیلایا ہے۔ اگرچہ 2022 کے رجحانات خطے میں دہشت گردی کی مقامی اور سرحد پار نوعیت کو نمایاں کرتے ہیں لیکن وہ پہلے سے ہی کمزور بین الریاستی تعلقات، خاص طور پر انڈیا پاکستان اور پاکستان افغانستان تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے علاقائی انسداد دہشت گردی کے منظم طریقہ کار کی غیر موجودگی، مسلسل بڑھتی ہوئی سماجی اور سیاسی پولرائزیشن، کمزور حکومتیں اور ریاستی سرپرستی انتہا پسند گروہوں کو 2023 میں ترقی کرنے کے مواقع فراہم کریں گی۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر