’خصوصی لائسنس‘ کے بعد بننے والے 120 سال پرانے سواتی امرسے

امرسہ سوات کی روایتی سوغات ہے، جو چاول سے بنائی جاتی ہے۔ اسے میٹھا بسکٹ بھی کہا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں 120 سال قبل شروع کی جانے والی ’امرسوں‘ کی دکان آج بھی موجود ہے جہاں مختلف قسم کے امرسے تیار کیے جاتے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل چینی اور اصلی گھی کی غیر موجودگی کے باعث امرسے دیسی گھی اور گڑ میں تیار ہوتے تھے، جنہیں لوگ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ یہ دکان 120 سال بعد بھی مقبول ہے اور اس کا وہی ذائقہ برقرار رکھا گیا ہے،

امرسہ سوات کی روایتی سوغات ہے، جو چاول سے بنائی جاتی ہے۔ اسے میٹھا بسکٹ بھی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دکان کے مالک شاہ بخت منیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ہمارا کاروبار اتنا پرانا ہے کہ اس وقت چینی بھی نہیں تھی اور چینی کی جگہ ہم ’ننداپ‘ استعمال کرتے تھے اور اصلی گھی میں تیار ہونے کے بعد اس کا ایک بے مثال ذائقہ تھا۔

’جس طرح وقت کے ساتھ چینی، گڑ، گھی مارکیٹ میں آئے تو ہم نے بھی چینی، گڑ اور گھی سے امرسے تیار کرنا شروع کر دیے۔ اب جس طرح ہم امرسے تیار کرتے ہیں، اسی طرح پورے پاکستان میں کہیں پر بھی تیار نہیں کیے جاتے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ ان کے پاس چار سے پانچ قسم کے امرسے تیار ہوتے ہیں۔

شاہ بخت منیر کے مطابق: ’ہمارے والد نے 120 سال پہلے سوات کے مرکزی شہر میں امرسہ بنایا اور سوات کے بادشاہ یعنی والئی سوات کی خدمت میں پیش کیا تو انہیں یہ بہت پسند آیا اور اس وقت انہوں نے ہمارے والد صاحب کو ایک خصوصی لائسنس دیا تو تب سے ہمارا کاروبار شروع ہوا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا