مظاہرین پر کریک ڈاؤن: امریکہ، یورپ اور برطانیہ کی ایران پر نئی پابندیاں

امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے پاسداران انقلاب کے ایک اہم اقتصادی ستون کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو ’حکومت کے ظالمانہ جبر‘ کے لیے زیادہ تر فنڈز فراہم کرتا ہے۔

تہران میں حکومت مخالف مظاہرے میں مظاہرین کا پولیس پر پتھراؤ (فائل تصویر: اے ایف پی)

مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے تہران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ستمبر میں نوجوان ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقیات پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد بدامنی کے خلاف ایران کے اقدامات پر یہ اقدامات مغربی ممالک کا تازہ ترین ردعمل اور حالیہ مہینوں میں تہران کے ساتھ مغرب کے پہلے سے ہی خراب تعلقات کے عکاس ہیں۔

زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں کا احتجاج 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی حکمرانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایران مغربی طاقتوں پر بدامنی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتا ہے۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ نے  پاسداران انقلاب کوآپریٹو فاؤنڈیشن اور اس کے بورڈ کے پانچ ارکان، انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے نائب وزیر ناصر راشدی اور ایران میں پاسداران انقلاب کے چار سینئر کمانڈروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے پاسداران انقلاب کے ایک اہم اقتصادی ستون کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو ’حکومت کے ظالمانہ جبر‘ کے لیے زیادہ تر فنڈز فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سینیئر سکیورٹی حکام بھی قومی اور صوبائی سطح پر تہران کے کریک ڈاؤن کو مربوط کر رہے ہیں۔

واشنگٹن نے پاسداران انقلاب پر پرامن مظاہروں کے خلاف جارحانہ کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے ’بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذریعے مظاہروں کو دبانے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔‘

امریکی وزارت خزانہ نے پاسداران انقلاب کوآپریٹو فاؤنڈیشن کو، جو پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، ایک اقتصادی گروپ قرار دیا ہے جو گروپ کے سینئر عہدیداروں نے ایران کی معیشت کے شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری اور موجودگی کا انتظام کرنے کے لیے بنایا ہے۔

امریکی وزارت خزانہ نے پاسداران انقلاب کوآپریٹو فاؤنڈیشن پر ’کرپشن اور بدعنوانی کا سرچشمہ‘ ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اس سے ملنے والی رقوم نے بیرون ملک پاسداران انقلاب کی فوجی مہم جوئی میں مدد کی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا، ’ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس وقت تک ایرانی حکومت کا احتساب کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ تشدد، جھوٹے مقدمات، مظاہرین کو پھانسی دینے اور اپنے عوام کو دبانے کے دیگر طریقوں پر انحصار کرتی رہے گی۔‘

’وحشیانہ جبر‘

یورپی یونین نے 30 سے زائد ایرانی عہدیداروں اور تنظیموں پر پابندیاں عائد کی ہے جن میں پاسداران انقلاب کے یونٹس بھی شامل ہیں اور ان پر مظاہرین کے خلاف ’وحشیانہ‘ کریک ڈاؤن اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے برسلز میں ہونے والے ایک اجلاس میں ان اقدامات پر اتفاق کیا۔

یورپی یونین کے سرکاری جریدے میں شائع ہونے والی ایک فہرست کے مطابق ان پابندیوں میں ایران بھر میں پاسداران انقلاب کے یونٹس اور سینئر عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سنی آبادی والے علاقے بھی شامل ہیں جہاں ریاستی کریک ڈاؤن شدید ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی پابندیاں 18 افراد اور 19 اداروں پر عائد کی گئیں۔ جن افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ یورپی یونین کا سفر نہیں کر سکتے اور اس بلاک کے اندر ان کے اثاثے منجمد کیے جا سکتے ہیں۔

یورپی یونین کی کچھ حکومتوں اور یورپی پارلیمنٹ نے واضح کیا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب کو مجموعی طور پر بلاک کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یورپی یونین کے کسی ملک کی عدالت آئی آر جی سی کو دہشت گردی کا مجرم قرار دے۔

ایران کی جانب سے اپنے عوام پر ’وحشیانہ جبر‘ کی وجہ سے برطانیہ نے بھی پیر کو مزید ایرانی افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

ان پابندیوں میں ایران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل احمد فاضلیان کے اثاثے منجمد کرنا بھی شامل ہے، جن کے بارے میں برطانوی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ غیر منصفانہ عدالتی نظام کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے سزائے موت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

برطانیہ کی جانب سے پیر کو جن دیگر افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں ایران کی بری افواج کے کمانڈر ان چیف کیومرس حیدری، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے ڈپٹی کمانڈر حسین نجات اور بسیج مزاحمتی فورس اور اس کے نائب کمانڈر سالار ابنوش بھی شامل ہیں۔

بسیج ملیشیا سے منسلک بسیج کوآپریٹو فاؤنڈیشن اور ایران کی قانون نافذ کرنے والی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر قاسم رضائی پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مہیسا امینی کی موت کے بعد سے برطانیہ نے ایران کے خلاف 50 نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ایران کے مغرب کے ساتھ طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات اس وقت سے مزید خراب ہوئے جب 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے اور تہران نے گذشتہ سال مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

یوکرین میں روس کی حمایت کی وجہ سے بھی ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، مغربی ریاستوں کا کہنا ہے کہ ماسکو نے یوکرین میں ایرانی ڈرون استعمال کیے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا