میانوالی تھانے پر عسکریت پسندوں کا حملہ ناکام

میانوالی کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد نوید کے مطابق  منگل اور بدھ کی درمیانی شب تھانہ مکڑ وال پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند پولیس کی جوابی فائرنگ سے پسپا ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

پاکستانی پولیس کمانڈوز 23 دسمبر 2019 کو لاہور میں انسداد دہشت گردی کی مشق میں شریک ہیں (اے ایف پی)

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ میانوالی میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب تھانہ مکڑ وال پر عسکریت پسندوں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔

میانوالی کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) محمد نوید کے مطابق حملہ آور پولیس کی جوابی فائرنگ سے پسپا ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

ڈی پی او کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا تھا، جس کا پولیس اہلکاروں نے بھرپور جواب دیا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے حملہ ناکام بنانے پر پولیس کو شاباش دی۔

وزیراعظم آفس سے جاری کیے گئے بیان میں غیرمعمولی بہادری کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران اور جوانوں کو انعام اور تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا گیا۔

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایس ایچ او مکڑ وال سے ٹیلی فونک رابطے میں پولیس کی جانب سے بروقت جوابی کارروائی اور بہادری و فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے والے ایس ایچ او اور محرر کو شاباش دی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔

وزیر اعلیٰ آفس سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’جس بہادری سے پولیس نے عسکریت پسندوں کا حملہ ناکام بنایا، وہ قابل تحسین ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’پنجاب حکومت ایس ایچ او اور دیگر عملے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔ دہشت گرد عناصر کا تعاقب جاری رکھتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘

میانوالی کارروائی کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

اس ناکام حملے کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب پیر (30 جنوری) کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

پشاور دھماکے کے بعد تمام تر شبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر گیا، جس نے گذشتہ برس نومبر کے آخر میں حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق گروپ کے ایک کمانڈر سربکف مہمند نے پیر کو ایک ٹوئٹر پوسٹ کے ذریعے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن 10 گھنٹے سے زیادہ کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مساجد یا دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کو ٹی ٹی پی کی پالیسی کے تحت تعزیری کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم محمد خراسانی کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے  اس دھماکے کی ذمہ داری کیوں قبول کی تھی۔

سکیورٹی اہلکاروں پر حالیہ حملے

ان دنوں ایک بار پھر ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے، جن میں سے بیشتر میں سکیورٹی اہلکاروں کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور کی مسجد میں ہونے والے حملے کو بھی ’سکیورٹی اہلکاروں سے انتقام‘ کہا جارہا ہے۔

گذشتہ روز پشاور کے سٹی پولیس چیف محمد اعجاز خان نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا تھا: ’ہم عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں فرنٹ لائن پر ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا گیا۔‘

گذشتہ ماہ خانیوال میں بھی شدت پسندوں نے خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دو افسران کو فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

گذشتہ برس دسمبر میں بھی خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی ایک پولیس چوکی پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک مقامی شہری کی اموات کے ساتھ ساتھ ایک پولیس اہلکار کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع سامنے آئی تھی۔

اس سے قبل خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں بھی شدت پسندوں نے سی ٹی ڈی آفس پر حملہ کرکے وہاں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

 اس حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’35 شدت پسندوں نے یہ صورت حال پیدا کی تھی، جن میں سے 25 سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے، سات نے ہتھیار ڈالے اور تین فرار کی کوشش میں گرفتار ہوگئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان