پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے انڈین ماڈل کتنا سود مند؟

ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا میں 1991 میں اسی قسم کی صورت حال سے گزر چکا ہے، جس کا سامنا آج پاکستان کو ہے۔

 27 جنوری 2023 کی اس تصویر میں کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بروکرزحصص کی تازہ ترین قیمتیں دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

نئے سال کے پہلے مہینے کے اختتام تک پاکستانی روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 270 روپے کی نچلی ترین سطح پر ہے۔

پاکستانی کرنسی ایشیا میں سب سے تیزی سے گرنے والی کرنسی کے مقام پر فائز ہو چکی ہے اور اس نے سری لنکا جیسے دیوالیہ ملک کی کرنسی کو بھی مات دے دی ہے۔

آبادی کے حوالے سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 3.7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جو ملکی درآمدی ضرورت کے صرف تین ہفتے ہی بمشکل نکال سکتے ہیں۔

اشیائے خوردونوش اور دوائیوں کے علاوہ ایل سی کھلنا بند ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرز پھنس گئے ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے ملکی صنعت زبوں حالی کا شکار ہے اور ترقیاتی منصوبے جامد ہو چکے ہیں۔ ہر طرح کی سرمایہ کاری سست روی کا شکار ہے۔

سٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اس مالی سال کے اختتام یعنی جون تک پاکستان کو قرضوں اور بیرونی ادائیگیوں کی مد میں 33 ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہو گی۔

ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے باہر کیسے نکل سکتا ہے اور کون کون سے ممالک ہیں جو اس صورت حال سے باہر آئے ہیں اور انہوں نے اس کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟

اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال تو ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کی ہے، جو 1991 میں اسی قسم کی صورت حال سے گزر چکا ہے، جس کا سامنا آج پاکستان کو ہے۔

آج انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر 607 ارب ڈالر ہیں جبکہ 1991 میں یہ صرف 9.22 ارب ڈالر رہ گئے تھے، جو انڈیا کی درآمدی ضرورت کے دو ہفتے بھی نہیں نکال سکتے تھے۔ انڈیا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔

1991 میں انڈیا کہاں کھڑا تھا؟

انڈیا کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ تھی کہ 21 مئی 1991 کو سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا۔ انتخابی نتائج جب آئے تو کانگریس جیت گئی اور نرسہما راؤ وزیراعظم بن گئے۔

من موہن سنگھ جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم بنے وہ ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ جب نرسہما راؤ نے عنان اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی خلیجی جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اسی طرح آسمان پر تھیں جیسی آج کل یوکرین جنگ کی وجہ سے ہیں، جس کی وجہ سے انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے خالی ہو رہے تھے۔

انڈیا کے پاس بھی اپنی درآمدات کے لیے سرکاری خزانے میں پیسے ختم ہو چکے تھے۔ انڈیا کا بجٹ خسارہ اس کے جی ڈی پی کے آٹھ فیصد سے اوپر جا چکا تھا جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تھا۔

نرسہما راؤ حکومت سخت اضطراب میں تھی کہ اس مشکل سے کیسے نکلے۔ مہنگائی بھی تاریخی حدوں کو چھو رہی تھی اور عام آدمی کی زندگی سخت مصائب میں گھر چکی تھی۔

نرسہما راؤ کی اوّلین ترجیح انڈیا کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ روپے کی قدر کو یکم جولائی کو نو فیصد گرا دیا جبکہ اس کے دو دن بعد مزید 11 فیصد گرایا، جس کی وجہ سے صرف تین دنوں میں روپے کی قدر 20 فیصد کم ہو گئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارتی برآمد کنندگان کو مزید سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور ملکی برآمدات میں اضافہ ہو۔

نرسہما راؤ جانتے تھے کہ اس کی سیاسی قیمت انہیں چکانا پڑے گی۔

زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے ایک قدم یہ اٹھایا گیا کہ انڈیا کے پاس جو سونے کے ذخائر تھے انہیں بینک آف انگلینڈ کے پاس گروی رکھا گیا جس سے انڈیا کو 400 ملین ڈالر ملے، جبکہ اس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران ہی سٹیٹ بینک آف انڈیا نے یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کو 20 ٹن سونا فروخت کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ انڈیا نے آئی ایم ایف سے دو ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔

اصلاحات جنہوں نے انڈیا کا پانسہ پلٹ دیا

درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ کا انتظام وقتی طور پر تو سود مند ثابت ہو سکتا تھا مگر انڈیا کو مستقل طور پر مالی بحران سے نکالنے کے لیے اس کے مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ناگزیر تھیں، جس کے لیے نرسہما راؤ نے اپنی قوم کو اعتماد میں لیا۔

انہوں نے سب سے زیادہ توجہ برآمدات بڑھانے پر مرکوز کی اور اس مقصد کے لیے نئی تجارتی پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت لائسنس راج کا خاتمہ کر دیا گیا یا اسے بہت حد تک محدود کر دیا گیا، یعنی جو بندہ صنعت لگانا چاہے وہ سرمایہ لائے اور لگائے، اسے ہر قسم کے اجازت ناموں اور سرخ فیتے سے آزاد کر دیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا دی گئی اور ملکی سرمایہ کاروں کو کہا گیا کہ وہ یہ مصنوعات اپنے ملک میں پیدا کریں۔ روپے کی قدر گرنے سے پہلے ہی صنعتی لاگت کم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی حکومت نے برآمدی مال پر صنعت کاروں کو مراعات بھی دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے لیے کسٹم ڈیوٹیوں اور دیگر ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔ سرکاری فرموں کے ذریعے ہونے والی درآمدات کو بھی ختم کر دیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کو کہا گیا کہ اب وہی مارکیٹ کی ضرورت کے مد نظر رکھ کر مال در آمد کریں۔

نئی حکومت نے پہلے سال کے بجٹ میں ہی ملک کے لیے نئی صنعتی پالیسی متعارف کروائی جو گیم چینجر ثابت ہوئی۔ بیرونی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو مکمل چھوٹ دی گئی اور انہیں ہر قسم کے این او سی اور لائسنسوں سے مبرا کر دیا گیا، جس سے کئی شعبوں میں سرکاری اجارہ داری ختم ہو گئی۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کی اس حد تک حوصلہ افزائی کی گئی کہ پہلے انڈیا میں کسی بھی منصوبے میں غیر ملکی کی سرمایہ کاری کی منظوری کی حد 40 فیصد تھی جسے بڑھا کر 51 فیصد کر دیا گیا۔

سرکار کی درآمدات کا دائرہ صرف ان شعبوں تک محدود کر دیا گیا جن کا تعلق قومی سلامتی کے امور سے تھا۔ ان پالیسیوں کی بدولت اگلے سالوں میں انڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا۔

بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کو پانچ فیصد بڑھا کر 45 فیصد کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور نکلوانے پر ٹیکس لگا دیا گیا، جس کی وجہ سے کئی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا جن میں گیس سلنڈرز، کھادیں اور پیٹرول بھی شامل تھا کیونکہ ان اشیا پر سبسڈی کا خاتمہ کر دیا گیا۔

پرائیویٹ سیکٹر میں میوچل فنڈز کو رواج ملا اور بیرون ملک مقیم انڈین شہری ملک میں سرمایہ لگانے پر راغب ہونے لگے۔

لوگوں کو چھوٹ دی گئی کہ وہ اپنے غیر ظاہر شدہ اثاثے ظاہر کر کے ایمنسٹی حاصل کریں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی ان پر کوئی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

اگلے آٹھ ماہ میں نرسہما راؤ کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کو سود مند بنانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے تاکہ انڈیا مالی بحران سے نکل سکے، جن میں چھوٹی صنعتوں کے لیے ایک اور تجارتی پالیسی کا اعلان بھی شامل تھا۔ اسی طرح مالی اصلاحات اور ٹیکس اصلاحات بھی متعارف کروائی گئیں۔

پاکستان کے لیے انڈین ماڈل کتنا سود مند ہو سکتا ہے؟

سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو آج انہی حالات کا سامنا ہے، جن سے انڈیا 1991 تک نبرد آزما رہا ہے۔ جب تک انڈیا نے سوشلسٹ اکانومی ماڈل کی بجائے آزاد تجارت، ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسیاں اختیار نہیں کی تھیں تب تک انڈیا کی اکانومی بھی زبوں حالی کا شکار ہی رہی تھی ۔

’اصلاحات کے بعد سے انڈیا کی حالت بدلنا شروع ہوئی جس کے بعد وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور اس کے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح آٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ 1991 میں متعارف کروائی گئی اصلاحات کی وجہ سے ان کے زرمبادلہ کے ذخائر 2000 میں 81 ارب ڈالر تھے جو آج چھ سو ارب ڈالر سے بھی اوپر ہیں کیونکہ ان کی برآمدات 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر 240 ارب ڈالر ہو چکی ہیں۔‘

ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق: ’3.2 ٹرلین ڈالر کے حجم کے ساتھ انڈیا آج دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکی ہے اور اس کی فی کس آمدنی 2500 ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو اس کی آزادی کے وقت سے 30 گنا زائد ہے۔

’اسی طرح اس کی زرعی پیداوار جو کہ 1950 میں صرف 50 ملین ٹن تھی وہ آج 316 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ انڈیا کی گاڑیوں، فارما سوٹیکلز، ٹیکسٹائل، صنعتی مشنری میں ہونے والی پیداوار اگلے پانچ سالوں میں ایک ٹرلین ڈالر کی حد کو عبور کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’انڈیا میں کاروبار کتنے عروج پر ہے، اس کی ایک مثال وہاں پر بڑھتے ہوئے ارب پتی افراد کی تعداد بھی ہے، جو 2010 میں 55 تھی اور آج 140 ہے۔

’انڈیا میں بڑھتے ہوئے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے تقریباً تمام ہی انڈیا میں داخل ہو چکی ہیں، جو مقامی انڈین کمپنیوں سے مل کر جوائنٹ وینچرز کر رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ ’اس لیے پاکستان کو بھی اس صورت حال سے نکلنے کے لیے انڈین ماڈل اپنانا ہو گا اور پاکستان کو آزاد تجارتی پالیسیوں کی طرف لے کر جانا ہو گا۔

’پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا اور اسے اب اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ کب تک آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں کے آگے گھٹنے ٹیکتے رہیں گے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت