خصوصی کمیٹی برائے بلوچستان کا قیام کے دو سال بعد پہلا اجلاس

پارلیمان کے اتفاق رائے سے سیاسی جماعتوں کے سینیئر نمائندوں اور وفاقی و صوبائی وزرا پر مشتمل اس خصوصی کمیٹی کو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کا کام صوبہ بلوچستان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس (تصویر:انڈپینڈنٹ اردو)

2020 میں بنائی جانے والی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی برائے بلوچستان کا پہلا اجلاس جمعرات کو ہوا جہاں ارکان نے صوبے کے عوام کو درپیش مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پارلیمان کے اتفاق رائے سے سیاسی جماعتوں کے سینیئر نمائندوں اور وفاقی و صوبائی وزرا پر مشتمل اس خصوصی کمیٹی کو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کا کام صوبہ بلوچستان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ اس 23 رکنی کمیٹی میں 14 اہم وفاقی وزرا سمیت پارلیمان کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بلوچستان کے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما خالد مگسی نے کہا کہ اگر صوبے کے مسائل پر بات کرنی ہے ’تو پہلے یہ دیکھ لیں بلوچستان کو کس کے ذریعے چلایا جاتا ہے؟ کیا صوبے کو اداروں کے ذریعے چلایا جاتا ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ ’آئین کے مطابق جو حقوق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبوں کو ملتے ہیں وہ انہیں بھی ملنے چاہییں۔ سوئی کا علاقہ سارے ملک کو گیس فراہم کرتا ہے لیکن وہاں رہنے والے افراد کو گیس میسر نہیں جو ان کا حق ہے۔ پنجاب والے ہم پر ترس کھائیں۔ بلوچستان کے مسائل پر بڑی باتیں ہوئیں لیکن آج تک حل نہیں نکلا۔‘

وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات اور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا کہ ’بلوچ بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنے باقی پاکستانی ہیں۔‘

متحدہ قومی موومنٹ کے اسامہ قادری نے کہا کہ ’ملک میں بلوچ کو تیسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کے ٹی او آرز بننے چاہییں تاکہ ان کی روشنی میں آگے بڑھا جا سکے۔‘

رکن قومی اسمبلی شہباز بلوچ نے کہا کہ صوبے کے مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو مسلسل کام کرے، بلوچستان کو سٹریم لائن کیے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ لاپتہ افراد کے مسئلے پر کام تیز کرنا ہوگا اور گوادر کا پانی اور بجلی کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیئرمین نادرا طارق ملک نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’سال 2014 کے بعد خیبرپختونخوا اور پنجاب میں سرمایہ کاری کی گئی لیکن بلوچستان میں نہیں کی گئی۔ بلوچستان کی 74 تحصیلیں ہیں جن میں سے 27 تحصیلوں کے دفتر ہی نہیں ہیں۔ حالیہ دنوں میں بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے نادرا کے دفتر کو آگ لگائی گئی ہے۔‘

رکن قومی اسمبلی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے، پٹرولیم، داخلہ اور دفاع کے معاملات کو ٹی او آرز میں شامل کیا جانا چاہیے۔ وفاقی وزیر ایاز صادق نے کہا کہ وقت کی کمی کے باعث ٹارگٹڈ کام کرنا ہوگا۔

اجلاس میں چیف سیکریٹری بلوچستان نے کہا کہ ’صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ سٹرکچر کا ہے جہاں جغرافیہ 44 فیصد جبکہ آبادی صرف چھ فیصد ہے۔ رقبہ زیادہ ہے جبکہ آبادی کم ہے، کئی مسائل اسی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ وسائل کی تقسیم بھی ایک مسئلہ ہے، بلوچستان کو قومی سطح پر نمائندگی نہیں ملتی اور نہ اسے قومی مالیاتی کمیشن میں مناسب نمائندگی دی گئی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’سیاسی نمائندگی کے علاوہ اس صوبے کو بیوروکریسی میں بھی نمائندگی چاہیے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریکو ڈک منصوبےکے حوالے سے متحدہ عرب امارات اور ترکی نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔‘

بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کمیٹی کے ٹی او آرز بنانے کا کام وزیر قانون و انصاف کو سونپتے ہوئے ہدایت کی کہ بلوچستان کے مسائل کی ایک فہرست تیار کرکے کمیٹی میں پیش کی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست