’مذہبی آزادی کے جھوٹے دعوؤں‘ کا الزام، سندھ حکومت کی تردید

ایچ آر سی پی کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان 8 مئی 2014 کو ملتان میں احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کا کہنا ہے کہ سال 2021 اور 2022 کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حوالے سے ریاست کے پُرعزم ہونے کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔

یہ بات انسانی حقوق کے ادارے نے ’اعتماد کو ٹھیس‘ کے عنوان سے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے متعلق جاری کردہ اپنی تازہ رپورٹ میں کہی ہے۔

ایچ آر سی پی چیئرپرسن حنا جیلانی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اگر یہ اقدامات فوری طور پر نہ کیے گئے تو پھرپاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کے مرتکب افراد کو کھلی چھوٹ کا ماحول فروغ پاتا رہے گا جس سے مذہبی آزادی کے لیے پہلے سے تنگ فضا مزید سکڑ جائے گی۔

ایچ آر سی پی نے تعلیم اور روزگار میں مذہبی اقلیتوں کے کوٹوں اور جواب دہی کے طریقہ کار از سرِ نو جائزہ لینے پر بھی زور دیا ہے تاکہ ان کوٹوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق سندھ میں جبری تبدیلی کے واقعات تشویشناک حد تک تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن جب اس طرح کے واقعات احمدیہ برادری سے وابستہ مقامات سے منسلک ہوں تو پھر ریاست کی طرف سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آتا۔

حکومتی موقف

ایچ آر سی پی کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق: ’پاکستان کے چاروں صوبوں میں سندھ واحد صوبہ ہے جہاں مذہبی اقلیت نہ صرف مکمل طور پر محفوظ ہے بلکہ آزاد زندگی گزارتی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرشید چنا نے کہا: ’کوئی اکا دکا واقعہ ہی ہوگا، مگر سندھ اتنا بڑا صوبہ ہے، اس کے باجود سندھ میں اقیلت کے تحفظ کا قانون موجود ہے، کسی بھی واقعے پر سندھ حکومت فوری طور پر قدم اٹھا کر اقیلت کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

’سندھ واحد صوبہ ہے جہاں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کے خلاف قانون اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس پر مذہبی جماعتوں نے اعتراض کیا، مگر اعتراض ختم کرکے قانون لے آئیں گے۔ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں کم عمر لڑکیوں کی شادی غیر قانونی ہے۔‘

ایچ آر سی پی مطالبہ

ایچ آر سی پی نے اپنے مطالبے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 2014 کے جیلانی فیصلے کی رُوح کے مطابق اقلیتوں کے لیے نمائندہ اور خود مختار قانونی قومی کمیشن تشکیل دیا جائے اور جبری تبدیلی کو جرم قرار دینے کے لیے فوری قانون سازی کی جائے۔

دیگر سفارشات کرنے کے علاوہ، ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست فرقہ وارانہ تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے بلکہ ایسا قومی بیانیہ تیار کرے جو مذہبی انتہا پسندی اور اکثریت پسندی کو واضح طور پر رد کرے۔

مذہب کی بے حرمتی کے متعلق متناع قوانین کو ذاتی انتقام سے روکا جائے اور اس کے علاوہ خاکروبوں کو بھرتی کرتے وقت ملازمت کے اشتہارات میں ’صرف غیر مسلم درخواست دینے کے اہل ہیں‘ کسی بھی حالت میں نہ لکھا جائے۔

حالیہ واقعات

گذشتہ دنوں کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے دو واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ ہفتے کو میر پور خاص میں بھی احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر مبینہ طور پر فائرنگ کا واقع پیش آیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے تین فروری کو سندھ میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے دو واقعات پیش آئے جن میں ضلع عمر کوٹ کے علاقے نور نگر میں نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر احمدیوں کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی تھی، جبکہ اسی رات ضلع میر پور خاص میں ان ہی کی ایک اور عبادت گاہ کے مینار مبینہ طور پر مسمار کر دیے گئے تھے۔

اس سے ایک دن قبل (جمعرات) کو کراچی کے علاقے صدر میں واقع ’احمدیہ ہال‘ کے بھی مینار مبینہ طور پر توڑ دیے گئے تھے، جبکہ 18 جنوری کو کراچی میں ہی مارٹن روڈ پر بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔

اس حوالے سے کراچی کے ایڈشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ پولیس کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں سے متعلق ضروری قانونی کارروائی کے نتیجے میں جلد گرفتاریاں کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ ’احمدیوں کی عبادت گاہوں پر مینار کی موجودگی سے اس عمارت پر مسجد ہونے کا شبہہ ہوتا ہے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔‘

کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حالیہ حملوں کے تناظر میں شہر کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس جاوید عالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ ’مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، تاہم انہیں 24 گھنٹے سکیورٹی نہیں دی جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان