فیصل آباد کی سوتر منڈی میں کاروبار کیسے ہوتا ہے؟

یہ سوتر منڈی نہ صرف فیصل آباد بلکہ ملک بھر کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دھاگے کی فراہمی کا اہم مرکز ہے۔

فیصل آباد کے تاریخی گھنٹہ گھر کی شمالی جانب منٹگمری بازار اور اس سے متصل گلیوں میں پاکستان کی سب سے بڑی سوتر منڈی واقع ہے، جسے ایشیا کی ’سب سے بڑی‘ سوتر منڈی بھی کہا جاتا ہے۔

یہ سوتر منڈی نہ صرف فیصل آباد بلکہ ملک بھر کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دھاگے کی فراہمی کا اہم مرکز ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہاں فروخت ہونے والے دھاگے کی 60 فیصد کھپت لوکل سیکٹر یعنی پاور لومز، 20 فیصد ایکسپورٹ سیکٹر یعنی شٹل لیس لومز، دس فیصد ہوزری سیکٹر اور دس فیصد ہی دیگر سیکٹرز یعنی ویلوٹ، قالین، خیمے، کینوس اور کمبل وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔

یہاں دھاگے کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ ساڑھے پانچ سو دکاندار پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں جن میں 85 فیصد ڈیلر، دس فیصد بروکر اور باقی سپننگ ملز کے نمائندے ہیں جبکہ درجنوں کی تعداد میں چل پھر کر کاروبار کرنے والے بروکر اور سرمایہ کار اس کے علاوہ ہیں۔

اس منڈی میں وال سٹریٹ کی طرح نہ تو جگمگاتے سائن بورڈز ہیں اور نہ ہی بلند و بالا اور پرشکوہ عمارتیں ہیں بلکہ تنگ و تاریک گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں اور بینچوں پر بیٹھے سوتر کا بھاؤ تاؤ کرتے لوگوں کو دیکھ کر کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ یہاں روزانہ کروڑوں، اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

اس منڈی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہونے والے کروڑوں روپے کے کاروبار میں سے زیادہ تر غیر رسمی ہوتا ہے، یعنی اس کا کوئی کمپیوٹرائزڈ کھاتہ نہیں اور نہ ہی بینکوں کے ساتھ کوئی لین دین ہے بلکہ زیادہ تر کاروبار سادہ پرچی اور اعتبار پر ہوتا ہے۔

پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ قیصر شمس گچھا کے مطابق سوتر منڈی کا آغاز 1956 میں ہوا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’پاکستان بننے کے بعد ہمارے آبا و اجداد نے پہلے یہاں کاروبار شروع کیا اور آغاز میں تقریباً دس، 12 دکانیں تھیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ تعداد بڑھتی گئی اور آج یہاں ساڑھے پانچ سو دکانیں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں موجود تین سو سپننگ ملز کا تمام مال یہاں آتا ہے اور پھر یہ مال آگے پاور لومز، شٹل لیس لومز، نٹ ویئر اور ایکسپورٹ سیکٹر کو فروخت  کیا جاتا ہے۔

’اس وقت ہماری سوتر منڈی میں تمام لوگ ٹیکس دہندہ ہیں اور کوئی ایسا بندہ نہیں جو ٹیکس ادا نہ کرتا ہو۔‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوتر کی خرید و فروخت کرنے والے دکانداروں کے ساتھ ایسے بہت سے لوگ بطور سرمایہ کار کام کرتے ہیں، جو نہ تو ان کی ایسوسی ایشن کے رکن ہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس دہندہ ہیں۔

’مختلف شہروں مثلاً حافظ آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس یہاں اپنی دکانیں نہیں ہیں تو وہ لوگ پرچی پر کام کرتے ہیں۔ ہم انہیں منع نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سٹاک ایکسچینج کی طرح سوتر منڈی کا سارا نظام بھی طلب اور رسد کی بنیاد پر چلتا ہے۔

’اگر طلب زیادہ ہے تو قیمت  بڑھ جائے گی اور اگر طلب کم ہے تو قیمت نیچے آجائے گی۔ ویسے یہاں پر کوئی سٹے بازی کا معاملہ نہیں ہے بس ایک محاورہ بن گیا ہے کہ یہاں سٹے بازی ہوتی ہے۔‘

شیخ قیصر کے مطابق زیادہ تر سرمایہ کار سوتر منڈی کا رخ اس وجہ سے بھی کرتے ہیں کہ یہاں پوری ٹیکسٹائل چین موجود ہے۔

’وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں سے دھاگہ خریدیں گے، یہیں سے کپڑا بنوائیں گے اور یہیں سے کپڑا تیار کروا کے اپنے شہروں میں جا کر فروخت کریں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہر سپننگ مل جو مال تیار کرتی ہے وہ ایک پیرامیٹر کے تحت بنتا ہے اور اسی حساب سے آگے گاہک کو فروخت کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر کسی پاور لوم والے کو یا کسی دکاندار کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ ہمارے پاس آتے ہیں کہ ہم نے آپ کی مارکیٹ سے یہ دھاگہ لیا ہے اور اس کا کپڑا بنایا ہے، جس میں خرابی آئی ہے تو پھر ہم دونوں پارٹیوں کو بلا کر ان کا تنازع حل کرواتے ہیں۔‘

سوتر منڈی میں گذشتہ 28 سال سے کاروبار کرنے والے آصف نعیم بٹ کے مطابق سوتر کی خرید و فروخت پارٹی کے نام پر ہوتی ہے۔

’پہلے بروکر جاتا ہے پارٹی کا نام بتاتا ہے، پھر خریدار لوم والا یا سرمایہ کار اس حساب سے ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر سوتر والے پیسے پہلے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوم والوں کو مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے آگے ادھار پر کپڑا فروخت کیا ہوتا ہے۔

سوتر منڈی میں 30 برس سے بروکری کرنے والے محمد نعیم نے بتایا کہ سپننگ مل والے اپنے ایجنسی ہولڈرز کو مال فراہم کرتے ہیں اور وہ پھر آگے بروکرز کے ذریعے ہول سیل ڈیلرز اور پرچون فروشوں کو سوتر فروخت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سٹے بازی تو یہ ہے کہ کسی کے پاس مال نہیں ہے اور وہ آگے اس کا سودا کر لے۔

’اگر کوئی ایسے کرتا ہے تو وہ اس کو پتہ ہے، مال تو سارا ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو ایک ہزار بورا لے لیں، آپ کو ایک منٹ میں مل جائے گا۔ وہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنی سہولت کے پیش نظر گودام سے نہیں اٹھاتے، اپنی مزدوری بچانے کے لیے، یہ آپ پر منحصر ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا