جاڑے اور فیصل آباد کی مونگ پھلی مارکیٹ کا ’جوبن‘

فیصل آباد کی غلہ منڈی میں دیگر شہروں سے آنے والے بیوپاری اپنی ضرورت کے مطابق منوں کے حساب سے مونگ پھلی خرید کر اسے پکانے، بھوننے، چھاننے اور رنگ دلوانے کے  لیے مونگ پھلی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔

جاڑے کی آمد کے ساتھ ہی دن کی میٹھی دھوپ ہو، گلابی شاموں کے فسوں میں ہونے والی دوستوں کی بیٹھک یا سردیوں کی بارش سے بھیگی راتوں کے دوران لحافوں میں گھسے اہلخانہ کے درمیان گپ شپ، یہ منظر مونگ پھلی کے بغیر ادھورے محسوس ہوتے ہیں۔

اسی لیے ہر خاص وعام کی پسندیدہ اس سوغات کی آمد کا موسم آتے ہی فیصل آباد کی غلہ منڈی سے چند فرلانگ کے فاصلے پر راجباہ روڈ کے مشرقی جانب واقع مونگ پھلی مارکیٹ میں کام اپنے جوبن پر پہنچ جاتا ہے۔

غلہ منڈی میں مختلف علاقوں سے فروخت کے لیے لائی جانے والی مونگ پھلی کی بوریوں کے کئی کئی فٹ بلند ڈھیر لگ جاتے ہیں۔

یہاں فیصل آباد کے مختلف علاقوں اور دیگر شہروں سے آنے والے بیوپاری اپنی ضرورت کے مطابق منوں کے حساب سے مونگ پھلی خرید کر اسے پکانے، بھوننے، چھاننے اور رنگ دلوانے کے  لیے مونگ پھلی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔
غلہ منڈی میں جعفری ٹریڈڑرز کے نام سے مونگ پھلی کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ عامر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غلہ منڈی میں مونگ پھلی گوجر خان، چکوال، تلہ گنگ، اٹک، کوہاٹ ، پارا چنار، کابل اور تاجکستان وغیرہ سے آ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہر علاقے کی زمین سے نکلنے والی مونگ پھلی معیار اور ذائقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔

’کچھ علاقوں میں ہاتھ سے چنائی کرتے ہیں اس میں اے گریڈ بنتا ہے جو بی اور ڈی ون کھاتے ہوتے ہیں ان میں عورتیں چنائی کر کے گریڈنگ کر دیتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گریڈنگ کے دوران جو کم معیار کا مال نکلتا ہے وہ سی کھاتہ ، بی کھاتہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور جو اے گریڈ ہوتا ہے وہ اچھی قیمت پر بکتا ہے۔

’اس کی لمبائی زیادہ ہوتی ہے، ڈبل دانہ ہوتا ہے۔ 80، 85 یا 100 فیصد ڈبل دانہ ہوتا ہے اس میں اور جو بی کھاتہ ہوتا ہے اس میں 50 فیصد ڈبل اور 50 فیصد سنگل دانہ ہوتا ہے۔‘

عامر رضا کے مطابق تلہ گنگ اور چکوال کا ذائقہ ایک جیسا ہےلیکن گوجر خان کا ذائقہ ان سے مختلف ہے۔

’پارا چنار سے آج کل تاجکستان کا مال آ رہا ہے، وہ لمبائی میں ان سے بھی زیادہ بڑا ہے اور اس کا اپنا ذائقہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد کی مارکیٹ سے مقامی بیوپاریوں کے علاوہ جڑانوالہ، گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، اوکاڑہ، پتوکی، بہاولنگر اور بہاولپور و دیگر علاقوں سے آنے والے بیوپاری مال خریدتے ہیں۔

’ہر گاہک کی اپنے علاقے کے حساب سے ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کوئی اے کھاتے کو پسند کرتا ہے ، کوئی بی کھاتے کو پسند کرتا ہے، کوئی سی کھاتے کو پسند کرتا ہے۔ جیسا علاقہ ہوتا ہے ویسی ہی اس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گوجر خان کی مونگ پھلی سب سے زیادہ اچھی ہے کیونکہ اس کا ذائقہ بہتر ہے اور یہ کھانے میں میٹھی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب اور موسم کی خرابی کے باعث اس دفعہ پچھلے سالوں کی نسبت مونگ پھلی کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے۔

’پہلے ہر فرم کے پاس دس پندرہ گاڑیاں ایک رات میں آتی تھیں اب ان کی تعد اد دو چار ہی رہ گئی ہے۔ پہلے ہمارے پاس جگہ نہیں ہوتی تھی گاڑیاں لگانے کے  لیے، گوداموں میں جا کر مال لگتا تھا، سٹور ہوتا تھا لیکن اس دفعہ یہ حالات نہیں ہیں اسی وجہ سے ریٹ بھی بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔‘

راجباہ روڈ کے ساتھ واقع مونگ پھلی مارکیٹ کے اولین دکانداروں میں سے ایک ناصر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غلہ منڈی سے کچی مونگ پھلی بوریوں میں یہاں لائی جاتی ہے۔

’کچھ لوگ اسے بھٹیوں میں تیار کرتے ہیں اور اب نیا کام یہ ہوا ہے کہ بجلی سے چلنے والے آٹومیٹک پلانٹ لگ گئے ہیں اور زیادہ تر مونگ پھلی پلانٹوں پر تیار ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پہلے مونگ پھلی کی صفائی خواتین روائتی چھاج سے کرتی تھیں لیکن اب اس کے بھی پلانٹ آ گئے ہیں۔

ناصر محمود کے مطابق ’سب سے اچھی مونگ پھلی گوجر خان کی ہےجو پاکستان میں بھی کھائی جاتی ہے اور پاکستان سے باہر بھی پسند کی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اچھی مونگ پھلی کی پہچان یہ ہے کہ وہ وزن میں بھاری ہوتی ہے اور اس کا دانہ موٹا ہونے کے ساتھ ساتھ کھانے میں بھی مزیدار ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چار دہائیاں قبل اس جگہ پر تین ، چار افراد مونگ پھلی اور کالے چنے بھوننے کا کام کرتے تھے لیکن اب یہ پوری مارکیٹ بن چکی ہے اور سینکڑوں لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مونگ پھلی کی اقسام کو علاقے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

’چکوال کی تین قسمیں ہیں، جھنڈ کی دو قسمیں ہیں، گوجر خان کی ایک ہےاور اس میں ایک پارا چنار آتی ہےجو مقامی ہے اور ایک تاجکستان کی آتی ہے وہ ملک میں باہر سے آتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال مونگ پھلی سات ہزار سے دس ہزار روپے من تھی لیکن اس بار ریٹ بارہ ہزار سے شروع ہو کر سترہ ہزار تک پہنچ چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا