پاکستان میں ہندوؤں کی سینکڑوں استھیاں انڈیا جانے کی منتظر

کراچی کے سورن پوری شمشان گھاٹ میں 350 استھیاں موجود ہیں جنہیں سرحد پار دریائے گنگا میں بہایا جانا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ہندو پنڈت مکیش کمار گذشتہ کئی برس سے ہر چند روز بعد شہر کے شمشان گھاٹ کا چکر لگاتے اور وہاں موجود اپنے گزر جانے والے رشتہ داروں کی ’استھیوں‘ (راکھ) کی انڈیا روانگی سے متعلق معلوم کرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں رمیش کمار نے کہ ان کے کئی رشتے داروں کی استھیاں برسوں سے یہاں رکھی ہیں، جنہیں وہ انڈیا میں دریائے گنگا کے پانی میں بہانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سرحد پار جانا ضروری ہے۔

’لیکن اتنے سال گزر جانے کے باوجود ہمیں انڈیا سفر کرنے کا ویزا نہیں مل پا رہا ہے۔ انڈین گورنمنٹ ہمارے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہمارے پیاروں کی روح کو سکون حاصل ہو۔‘

کراچی میں صدیوں سے آباد ہندو کمیونٹی میں رمیش کمار اکیلے شخص نہیں جن کے رشتہ داروں کی استھیاں انڈیا لے جائے اور دریاے گنگا میں بہائے جانے کی منتظر ہیں۔

ہندو مذہب میں مرنے والے کی باقیات کو جلا دیا جاتا ہے اور راکھ دریا برد کیے جانے سے قبل برتن میں رکھی جاتی ہے، جسے استھی کہا جاتا ہے۔

اسی لیے عام طور پر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ دریا یا نہر کے کنارے بنائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں رہنے والے ہندو عام طور پر استھیاں دریائے گنگا میں بہانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہندو مذہب میں راکھ استھیوں کو میٹھے پانی میں بہایا جانا ضروری ہے، جس سے مرنے والے کی روح کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کراچی کے سون پوری شمشان گھاٹ پہنچی تو اس وقت بھی وہاں ایک میت کو جلایا جا رہا تھا۔

شمشان گھاٹ کے ایک کمرے، جسے بھی ’استھی کالاش پلیس‘ کا نام دیا گیا ہے، میں لگ بھگ 300 استھیاں موجود پائی گئیں۔

استھیوں کو سٹیل یا مٹی کے برتنوں اور کپڑے میں پوٹلیوں کی شکل میں رکھا گیا ہے جبکہ ہر استھی پر مرنے والے کا نام اور تاریخِ وفات درج ہے۔

سون پوری شمشان گھاٹ کے نگراں مہاراج شری رام ناتھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2016 میں 160 استھیاں گنگا میں بہانے کی خاطر انڈیا روانہ کی گئی تھیں اور اس کے بعد کسی کو استھی کی غرض سے ویزا نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انڈین حکومت استھیاں پاکستان سے سرحد پار لے جانے کے خواہش مندوں کو ویزا نہ دینے کی وجہ بھی نہیں بتا رہی۔‘

شری رام ناتھ کا کہنا تھا: ’استھیوں اس بھروسے پر ہمارے سپرد کی گئی ہیں کہ انہیں اجتماعی طور پر گنگا برد کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بعض ہندو انڈیا جانے کی اجازت نہ ملنے کے باعث کراچی یا سندھ کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں میں اپنے پیاروں کی استھیاں مجبوراً کسی بھی دریا یا نہر میں بہا دیتے ہیں۔

شری رام ناتھ نے بتایا کہ انہوں نے انڈین وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو الگ الگ درخواستوں میں پاکستانی ہندوؤں کو استھیاں اجتماعی طور پر دریا برد کرنے کی غرض سے مخصوص ویزے دیے جانے کی استدعا کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہب سیاست اور تقسیم سے زیادہ اہم ہے اور آخری رسومات کے لیے ہندوؤں کے دریائے گنگا جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، یہ ان کا بنیادی مذہبی حق ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا