پی ایس ایل: کرکٹ بال کن مراحل سے گزر کر میدان تک پہنچتی ہے؟

صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ ہیں کھیلوں کا سامان، جس کے لیے سیالکوٹ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ ہیں کھیلوں کا سامان، جس کے لیے سیالکوٹ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

سیالکوٹ سے دنیا بھر میں جانے والے کھیلوں کے سامان میں بظاہر کسی حد تک کمی ہوئی مگر اب بھی کئی کھیلوں کا سامان جن میں کرکٹ بیٹ، گیندیں، فٹ بال وغیرہ شامل ہیں یہاں سے بن کر دوسرے ممالک بھیجے جاتے ہیں۔

ان دنوں پاکستان میں کرکٹ کا موسم ہے۔ یعنی پاکستان سپر لیگ شروع ہونے والی ہے تو ہم نے سوچا کیوں نہ سیالکوٹ کا دورہ کیا جائے اور وہاں بننے والے کرکٹ کے سامان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے کہ آخر یہ سب بنتا کیسے ہے۔

اسی حوالے سے ہم نے دورہ کیا ایک ایسی فیکٹری کا جہاں کرکٹ کی گیندیں بنائی جاتی ہیں۔

اس فیکٹری مالک نے پہلے تو شکوہ کیا کہ ان کی بنائی گیندیں پہلے تو قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں استعمال ہوتی تھیں لیکن اب وہ صرف مقامی سطح پر کلب کرکٹ تک ہی محدود ہو گئی ہیں۔

شکوہ کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں فیکٹری کا دورہ کروایا اور بتایا کہ کرکٹ کی گیندیں کیسے تیار کی جاتی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر معلوم ہوا کہ ایک چھوٹی سی گیند کے پیچھے کتنے لوگوں کی محنت اور مہارت استعمال کی جاتی ہے۔

کرکٹ بال کی تیاری

سب سے پہلے معیاری چمڑا خریدا جاتا ہے۔ پھر اسے سفید یا سرخ رنگ کر دیا جاتا ہے۔ سفید رنگ کی گیند عام طور پر ڈے اینڈ نائٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں استعمال کی جاتی ہیں جبکہ سرخ رنگ کی گیند ٹیسٹ اور سہ روزہ میچز میں استعمال ہوتی ہے۔

چمڑا خرید کر اسے رنگ کرنے کے بعد اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

وہاں کام کرنے والے کاریگروں کے مطابق ایک گیند میں چمڑے کے چار ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے دو ٹکڑوں کو جوڑ کر آدھا کور بنایا جاتا ہے۔

اس کے بعد ایک ربڑ سے بنی گیند پر دھاگہ چڑھایا جاتا ہے اور چمڑے کے پہلے سے تیار دو، دو حصوں کو گیند پر چڑھا کر ایک مشین بند کر دیا جاتا ہے۔

ان مراحل کے بعد دونوں حصوں کو ربڑ سے بنی گیند کے اوپر فٹ کر کے سلائی کی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرکٹ گیندوں کی سلائی بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ہاتھ سے کی جاتی ہے جبکہ دوسری مشین سے کی جاتی ہے۔ ہاتھ سے سلائی کی جانے والی گیند مشینی سلائی سے بنی گیند کی نسبت مہنگی ہوتی ہے اور ان دونوں کی کوالٹی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کیونکہ کاریگروں کے مطابق یہ کافی محنت طلب کام ہوتا ہے۔

اس کے بعد باری آتی ہے پالش کی۔ پالش کافی دھیان سے کیے جانے والا کام ہے کیونکہ پالش میں اونچ نیچ ہو جائے تو گیند قابل استعمال نہیں رہتی۔

پالش کے بعد سب سے آخری مرحلہ ہوتا ہے جس میں گیند پر ٹیگ لگایا جاتا ہے۔ ٹیگ لگنے کے بعد یہ گیند فروخت کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔

فیکٹری مالک کا شکوہ

فیکٹری مالک ملک ذوالفقار کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والی گیند کا استعمال چند سال قبل تک انٹرنیشنل اور نیشنل مقابلوں میں ہوتا تھا مگر اب ان کا استعمال مقامی سطح تک محدود ہو گیا ہے۔

ملک ذوالفقار کہتے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی گیند کی قیمت چار سے پانچ سو روپے ہے لیکن آئی سی سی اور پی سی بی غیر ملکی گیند کوکا بورا استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

’اس میں اس کمپنی کی موناپلی شامل ہے کیونکہ ہماری گیند بھی اسی معیار کی ہے مگر وہ مہنگی ہونے کے باوجود استعمال ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پریکٹس اور مقامی کرکٹ کے لیے ہر ملک میں انہی کی بنائی گیند استعمال ہوتی ہے اور عالمی یا قومی مقابلوں میں کوکا بورا کی گیند سے کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ