پنجاب: عدالت کا الیکشن کمیشن کو 90 دن میں الیکشن کروانے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ میں مقررہ مدت کے دوران انتخابات کے حوالے سے متفرق درخواستوں پر سماعت کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں 90 دن میں انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔

ایک وکیل لاہور ہائی کورٹ میں اپنے مقدمے کی سماعت کے بعد واپس جا رہا ہے (اے ایف پی فائل فوٹو)

لاہور ہائی کورٹ میں مقررہ مدت کے دوران انتخابات کے حوالے سےمتفرق درخواستوں پرآج دوسرے روز بھی سماعت ہوئی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں 90 دن میں انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے 16 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں سپریم کورٹ اور عدالت عالیہ کے مختلف فیصلوں کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 218(3) کی تشریح واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔ یعنی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس طرح کا اختیار صرف انتخابات کے دن یا اس کے بعد تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے کے تمام مراحل تک ہے، جو کہ انتخابی عمل  کے اجرا کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ آغاز کرنا ہوتا ہے۔ ‘

لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے متعلق الیکشن کمیشن کے اختیار کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے ’شیخ رشید احمد vs حکومت پنجاب‘ اور دیگر فیصلوں میں مزید بڑھایا گیا ہے۔

’مذکورہ بالا فیصلوں میں، یہ محفوظ طریقے سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ای سی پی اعلیٰ، آزاد اور غیر جانبدار آئینی اتھارٹی ہونے کے ناطے آئین کے تحت پاکستان میں قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے حتمی آئینی اتھارٹی ہے۔‘

دوران سماعت آئی جی پنجاب عثمان انور لاہور ہائی کورٹ پیش ہوئے تو جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ ’آئی جی صاحب آپ الیکشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘

آئی جی نے جواب دیا ’میں ابھی آیا ہوں، مجھے اس کیس کے بیک گراؤنڈ کا نہیں پتہ، ہم نے اپنی تجاویز الیکشن کمیشن کودے دی ہیں۔ انتخابات سے متعلق جو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہو گا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ ’ہمیں بس آپ کی یقین دہانی چاہیے تھی، آئی جی  پنجاب جانا چاہیں تو عدالت سے جا سکتے ہیں۔‘

جسٹس جواد حسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق الیکشن کمیشن کی معاونت کےلیے تیار ہوں گے، آئین کا آرٹیکل 220 پڑھ کر سنائیں۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے الیکشن بروقت کروانے سے معذوری ظاہر کی اور دلائل دیے کہ ’جوڈیشری، چیف سیکرٹری، فنانس سب نے معذرت کرلی ہے۔ الیکشن کمیشن ایسے حالات میں کیسے الیکشن کروا سکتا ہے یہ کیس صرف الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔‘

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا جا سکتا۔ کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ دے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ’درخواست میں وفاقی حکومت کو بھی فریق نہیں بنایا گیا جس نے فنڈزجاری کرنے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے عدلیہ سے رابطہ کیا انہوں نے ججز دینے سے انکار کر دیا کہ کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن وکیل کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ’اگر پنجاب میں نگران حکومت نہیں ہو گی شفاف انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں؟ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ دے گا، اگر یہ کہیں لکھا ہو گا تو میں عدالت سے باہرچلا جاؤں گا۔‘

اس کے بعد درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’گورنر پنجاب کو 26 جنوری کو خط لکھا گیا کہ تمام قانونی ضابطے پورے کریں، مگر کسی نے جواب نہیں دیا، آئین کا آرٹیکل 105 بڑا واضح ہے میرا کیس صرف یہ ہے کہ الیکشن 90 دن میں ہونے ہیں اور تاریخ دینی ہے۔‘

اظہر صدیق نے کہا ’ضیا الحق نہیں بننا جو آیا تو تھوڑی دیر کے لیے تھا مگر 11 برس  الیکشن نہیں کرائے۔‘

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے جج کے سامنے موقف پیش کیا کہ ’عدالت سے استدعا ہے کہ اگرپیسوں کی وجہ سے الیکشن نہیں ہوسکتے تو عالمی سطح پر پاکستان کا امیج کیا جائے گا؟ کل کو کہا جائے گا کہ ان کے پاس الیکشن کروانے کے پیسے نہیں یہ ملک ہمارا ہے، ہم نے یہاں ہی رہنا ہے۔‘

تحریک انصاف نے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے اور 90 دن میں انتخاب کرانے کی درخواست بھی کی۔

اس سے قبل گذشتہ روز جمعرات کو بھی اس کیس کی سماعت ہوئی جس میں فریقین کی جانب سے دلائل دیے گئے تھے تاہم عدالت نے سماعت آج جمعہ تک ملتوی کر دی تھی آج دلائل مکمل ہونے کے بعد دوپہر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست