امریکہ نے اپنی فضائی حدود میں نامعلوم چیز کو مار گرایا

صدر بائیڈن کے حکم پر امریکی لڑاکا طیارے نے الاسکا میں نامعلوم شے کو مار گرایا، جو مبینہ چینی جاسوس غبارے کے بعد دوسرا واقعہ ہے۔

پینٹاگون کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر 10 فروری 2023 کو آرلنگٹن، ورجینیا میں پینٹاگون میں پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ پینٹاگون نے اعلان کیا کہ امریکی فوج نے ایک نامعلوم چیز کو مار گرایا جو الاسکا کے منجمد پانیوں پر پرواز کر رہی تھی (اے ایف پی)

امریکی فوج کے ایک لڑاکا طیارے نے صدر جو بائیڈن کے حکم پر شمال مغربی ریاست الاسکا کے ایک دور دراز ساحل پر ہوا میں پرواز کرنے والی ایک نامعلوم چیز کو مار گرایا۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے جمعے کو بتایا کہ اس نامعلوم چیز کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہ تقریباً 40 ہزار فٹ بلندی پر پرواز کر رہی تھی اور کمرشل پروازوں کی کے لیے ایک ’بڑا خطرہ‘ ہوسکتی تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ چیز نگرانی میں مصروف تھی یا نہیں تاہم صدر بائیڈن نے جمعے کو اس شے کو مار گرانے پر صرف اتنا کہا کہ ’یہ ایک کامیابی تھی۔‘

کمرشل ہوائی طیارے اور نجی جیٹ طیارے 45 ہزار فٹ  تک اونچی پرواز کرتے ہیں۔

جان کربی نے اس چیز کے حجم کے بارے میں بتایا کہ یہ تقریباً ایک چھوٹی کار کے سائز کے برابر تھا جو اس بڑے مشتبہ چینی جاسوس غبارے کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے جسے امریکی ایئر فورس کے لڑاکا طیاروں نے ہفتے کے روز جنوبی کیرولائنا کے ساحل پر مار گرایا تھا۔

ایک ہفتے میں اس طرح کے یکے بعد دیگرے دو واقعات غیر معمولی ہیں اور چین کے ’جاسوسی‘ کے پروگرام اور بائیڈن پر اس کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کے لیے عوامی دباؤ پر بڑھتے ہوئے خدشات کی عکاسی کرتے ہیں۔

تاہم جمعے کو گرائی گئی نامعلوم چیز کے بارے میں امریکی حکام یہ نہیں بتا سکے کہ آیا اس میں کوئی نگرانی کے آلات نصب تھے اور یہ کہاں سے آیا تھا یا اس کا مقصد کیا تھا؟

پینٹاگون نے بھی اس پراسرار چیز کی مزید وضاحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور صرف یہ بتایا کہ اس میں انسان سوار نہیں تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ یہ شے پچھلے ہفتے مار گرائے جانے والی چینی غبارے سے کہیں زیادہ چھوٹی تھی اور ایسا معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کسی خاص مشن پر تھی۔

کربی نے کہا کہ پینٹاگون کے مشورے کی بنیاد پر بائیڈن نے کمرشل ہوا بازی کو درپیش ممکنہ خطرے کی وجہ سے اسے مار گرانے کا حکم دیا۔

کربی نے کہا: ’ہم اپنی فضائی حدود کے بارے میں چوکس رہیں گے اور صدر ہماری قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔‘

صدر کو جمعرات کی شام اس چیز کی امریکی فضائی حدود میں موجودگی کے بارے میں بتایا گیا جب دو لڑاکا طیاروں نے اس کا جائزہ لیا۔

پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جنرل پیٹ رائڈر نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ الاسکا کے جوائنٹ بیس ایلمینڈورف رچرڈسن پر تعینات ایک ایف 22 لڑاکا طیارے نے AIM-9X نامی مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا استعمال کرتے ہوئے اسے مار گرایا، اسی قسم کے میزائل کا استعمال تقریباً ایک ہفتہ چینی قبل غبارے کے خلاف کیا گیا تھا۔

مشتبہ جاسوس غبارے کے برعکس شمالی الاسکا میں ٹھنڈ کے پیش نظر بہت کم لوگوں نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو گا۔

شوٹ ڈاؤن سے پہلے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے الاسکا کے بلن پوائنٹ کے قریب امریکی فضائی حدود کے اندر تقریباً 10 مربع میل کے علاقے کو پروازوں نو فلائی زون قرار دے دیا تھا۔

ادھر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہیں اس بارے میں بریفنگ دی گئی ہے اور انہوں نے (امریکی صدر کے اس) فیصلے کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری فوج اور انٹیلی جنس سروسز ہمیشہ مل کر کام کریں گی۔‘

شوٹ ڈاؤن کے بعد یہ مشتبہ چیز منجمد پانیوں پر گر گئی اور حکام کو توقع ہے کہ وہ گذشتہ ہفتے چینی غبارے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اس کا ملبہ نکال سکیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کو مبینہ جاسوس غبارے کے واقعے سے نمٹنے کے طریقہ کار پر ریپبلکنز کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سینیٹ کے ریپبلکن رہنما مچ میک کونل نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا ’ہمیشہ کی طرح جب قومی دفاع اور خارجہ پالیسی کی بات آتی ہے تو بائیڈن انتظامیہ نے پہلے فیصلہ کرنے میں دیر کی اور پھر بہت دیر سے ردعمل ظاہر کیا۔

’ہمیں عوامی جمہوریہ چین کو اپنی فضائی حدود کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔‘

اس سے قبل اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ مائیک مولن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ان کے خیال میں چینی فوج میں موجود عناصر نے اینٹنی بلنکن کے دورے میں خلل ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر غبارے چھوڑے ہوں گے۔

امریکی وزیر کی جانب سے دورے کی منسوخی کے اعلان کے ساتھ ہی غبارے کو مار گرایا گیا تھا اور چین کے بیانات کا لہجہ معذرت خواہانہ سے غصے میں بدل گیا تھا۔

چین نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے متنبہ کیا تھا کہ بیجنگ ’مزید ضروری ردعمل دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ