جلاوطن رہنما ایرانی حکومت کے خلاف اتحاد کے لیے متحرک

ایران کی اپوزیشن اندرون اور بیرون ملک طویل عرصے سے متعدد دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں بادشاہت پسند، عرب، بلوچ اور کرد شامل ہیں۔

ایران میں 1979 کے انقلاب کی سالگرہ کے موقعے پر جہاں اندرون ملک حکومت نواز تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے وہیں بیرون ملک مقیم جلا وطن رہنما بکھری ہوئی ایرانی اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

ہفتے کو ایرانی انقلاب کی 44 ویں سالگرہ کے موقع پر ریاست کے زیر اہتمام ریلیاں نکالی گئیں جب کہ حکومت مخالف ہیکرز نے صدر ابراہیم رئیسی کی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر کو کچھ دیر کے لیے روک دیا، دوسری جانب جمعے کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں آٹھ جلاوطن شخصیات نے ایک تقریب میں شرکت کی جس کا مقصد ایرانی حزب اختلاف کو اکٹھا کرنا تھا۔

ہفتے کو اپنے خطاب میں ایرانی صدر رئیسی، جن کی سخت گیر حکومت کو نوجوان مظاہرین کی جانب سے برطرفی کا مطالبہ کرنے والے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک کا سامنا ہے، نے ’فریب کھائے نوجوانوں‘ سے اپیل کی کہ وہ اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کریں تا کہ انہیں ایران کے سپریم لیڈر معاف کر سکیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق تہران کے وسیع آزادی چوک میں جمع ہونے والے شہریوں سے خطاب میں رئیسی نے کہا کہ ’ایرانی لوگ ان کے لیے بازو کھول دیں گے۔‘

ان کی تقریر نشر کیے جانے سے قبل حکومت مخالف ہیکرز نے رئیسی کی انٹرنیٹ پر براہ راست نشر ہونے والی اس تقریر کو ایک منٹ تک روکے رکھا۔

 اس دوران سکرین پر حکومت مخالف ہیکرز کے اس گروپ کا لوگو دکھائی دیا جو ’عدالت علی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ کے نعرے بھی سنائے دیتے رہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر اے این اے کا کہنا ہے کہ ایران میں ستمبر سے ہونے والے احتجاج میں جمعے تک 528 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 71 بچے بھی شامل ہیں۔

تنظیم کے مطابق مظاہروں میں سرکاری فورسز کے 70 اہلکار بھی مارے گئے جب کہ 19 ہزار 763 مظاہرین کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا۔

ایرانی رہنماؤں اور سرکاری میڈیا نے بظاہر اس احتجاج کے ردعمل میں کئی ہفتے تک شہریوں سے اپیل کی وہ بڑی تعداد میں ریلیوں میں شرکت کریں تاکہ حکومت کی مقبولیت اور ان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ سال ستمبر میں نوجوان ایرانی کرد خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد بدامنی کی ملک گیر لہر نے ایران کو ہلاک کر رکھ دیا تھا۔

کرد خاتون مہسا امینی کو ملک میں خواتین کے لیے رائج اسلامی لباس کے سخت ضابطے کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ انقلاب کے بعد سے یہ مظاہرے ایران کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہیں۔

واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ہونے والی حزب اختلاف کی تقریب میں امن کا نوبیل انعام یافتہ ایرانی مصنفہ شیریں عبادی نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’ایران ہمارے اختلافات کی وجہ سے بچ گیا ہے اور ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے جب تک کہ ہم پولنگ بوتھ پر نہ پہنچ جائیں۔‘

اس موقعے پر امریکہ میں مقیم خواتین کے حقوق کی وکیل مسیح علی نژاد نے کہا کہ ’ہمیں انسانی حقوق کے اعلامیے پر مبنی اصولوں، امتیازی سلوک کے خاتمے، اور ان اصولوں پر متفق ہونا چاہیے جن میں ہر ایرانی خود کو دیکھ سکتا ہے اور جو ظلم کے خاتمے کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

مسیح علی نژاد نے امید ظاہر کی کہ 2023 کے آخر تک حزب اختلاف کے اصولوں پر کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔

تقریب میں شاہ ایران جن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، کے بیٹے رضا پہلوی نے اس سوال پر کہ ایرانی حزب اختلاف کی آٹھ شخصیات میں صرف ایک کرد رہنما کیوں ہیں؟ کہا کہ ’آپ کو اجلاس میں شرکت کے لیے کسی دعوت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مفت بس ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کی اپوزیشن اندرون اور بیرون ملک طویل عرصے سے متعدد دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے، جن میں بادشاہت پسند، رپبلکن اور بائیں بازو کی تنظیمیں اور کرد، بلوچ اور عربوں پر مشتمل نسلی اقلیتوں کا گروپ شامل ہے۔

ملک کے اندر ایران کے سرکاری میڈیا نے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر آتش بازی کا مظاہرہ اور ریلی دکھائی جس میں شامل لوگ مذہبی نعرے لگا رہے تھے۔

لیکن سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز پر بہت سے لوگوں کو ’آمر مردہ باد‘ کا نعرہ لگاتے سنا جا سکتا ہے۔

مبینہ طور پر تہران کے علاقے افسریہ کی ایک ویڈیو میں دور سے آتش بازی دکھائی گئی جب کہ مظاہرین کو’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

 اسی طرح کی سوشل میڈیا ویڈیوز جن کی روئٹرز آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکا، کئی شہروں میں گھر میں رہنے والے مظاہرین کو کھڑکیوں اور چھتوں سے حکومت مخالف نعرے لگاتے دکھایا گیا ہے۔

انقلاب کی سالگرہ کے موقعے پر عام معافی کے طور پر ایرانی حکام نے جیل میں بند حکومت مخالف رہنما فرہاد میثمی کو بھی رہا کر دیا جو بھوک ہڑتال پر تھے۔

ایک ہفتہ قبل ان کے حامیوں نے خبردا کیا تھا کہ میثمی نے خواتین کے لازمی حجاب کے خلاف احتجاج میں موت کا خطرہ مول لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا