کیا پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں ہزار سٹیڈیم بنائے؟

عمران خان نے 2013 میں ایک خطاب کے دوران خیبر پختونخوا میں ایک ہزار سٹیڈیم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد دس سال صوبے اور چار سال وفاق میں حکومت میں رہنے کے باوجود پی ٹی آئی وعدہ ایفا نہ کر سکی۔

پاکستانی کارکن 30 جنوری 2006 کو پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلے ایک روزہ بین الاقوامی میچ کی تیاری کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے 2013 میں پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں امن کے حوالے سے ایک کرکٹ میچ کے دوران خطاب میں خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں ’بڑے کھیل کے میدان‘ بنانے ک اعلان کیا تھا مگر وہ اس پر عمل درامد نہیں کر سکی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں حکومت بنی، جبکہ 2018 میں پی ٹی آئی دوبارہ صوبے میں اقتدار میں آئی اور اس وقت کے وزیر کھیل و سیاحت نے 2019 میں صوبے میں ایک ہزار کھیل کے میدان بنانے کے لیے منصوبہ تیار کیا تھا۔

کھیل کے میدان بنانے کے منصوبے پر2017  کام میں آغاز کیا گیا اور ہر سال پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اس مد میں بجٹ میں رقم بھی مختص کی جاتی رہی۔

کھیلوں کے میدان بنانے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے وزرا مختلف مواقع پر کہتے تھے کہ مذکورہ میدان تحصیل اور یونین کونسل سطح پر بنائے جائیں گے تاہم صوبے میں پی ٹی آئی کے 10 سالہ دور اقتدار کے دوران صرف 151 کھیلوں کے میدان بنائے جا سکے۔

کھیل کے چھوٹے میدانوں کے علاوہ صوبے کا واحد بین الاقوامی طرز کا کرکٹ سٹیڈیم ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم، تقریباً چار سال گزرنے کے باجود بھی مکمل نہیں ہو پایا ہے۔

گذشتہ سال محکمہ کھیل کے ڈائریکٹر اسفندیار خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ سٹیڈیم کو 2022 کے پاکستان سپر لیگ میچز کے لیے تیار کیا جائے گا۔

2022 تو گزر گیا اور 2023 کا پی ایس ایل بھی شروع ہو چکا ہے، لیکن ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم پر تعمیراتی کام ابھی تک جاری ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ایک ہزار کھیل کے میدانوں کے لیے حکومت نے تقریبا پانچ ارب روپے مختص کیے لیکن جن میں سے اب تک بننے والے 151 کھیل کے میدانوں پر دو ارب روپے سے زیادہ خرچ کیے جا چکے ہیں۔

بعدازاں باقی بچ جانے والے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے محکمہ کھیل و سیاحت سے ایک دوسرے محکمے کو منتقل کیے گئے تھے، جہاں یہ رقم فارچیونر گاڑیاں خریدنے کے لیے استعمال کی گئی۔

صوبائی ڈائریکٹر سپورٹس خالد خان نے اس بات کی تردید کی لیکن مزید تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے دریافت کرنے پر انہوں نے نہیں بتایا کہ کھیل کے میدانوں کے لیے مختص رقم میں سے بچ جانے والے پیسے کہاں خرچ کیے گئے۔

انہوں نے کھیلوں کے میدانوں کے منصوبوں کے حوالے سے بھی تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔

گذشتہ 10 سال سے سپورٹس رپورٹنگ کرنے والے صحافی محمد اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اعلان تو سٹیڈیم بنانے کا کیا گیا تھا لیکن دراصل ابھی تک جو بنائے گئے ہیں، وہ صرف ’پلےاِنگ فیلڈز‘ ہیں۔

اعجاز نے بتایا: ’سٹیڈیم میں ایک سے زائد کھیلوں کے سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، جبکہ پلےاِنگ فیلڈ صرف ایک کُھلا میدان ہوتا ہے، جہاں کھیلنے کے سہولیات دی جاتی ہیں۔‘

محمد اعجاز سے جب پوچھا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے کس قسم کے میدان بنائے ہیں، تو ان کا کہنا تھا: ’زمین خریدی گئی، ہموار کر کے اس پر گھاس لگائی گئی، ایک واش روم اور چھوٹا سا پویلین بنا دیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض ایسی پلینگ فیلڈز یا کھیلوں کے میدان ہیں، جو پہلے سے موجود تھے، ان کی محض تزئین و آرائش کی گئی۔

محمد اعجاز کے مطابق151  بنائے گئے کھیل کے میدانوں میں سے 116 کی مرمت کے پورے اخراجات ٹھیکہ داروں کو ادا نہیں کیے گئے۔

کھیل کے میدان کہاں کہاں بنائے گئے؟

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود تفصیلات کے مطابق بنائے گئے میدانوں میں 55 تحصیل کی سطح پر اور 17 سکولوں کے اندر بنائے گئے، جبکہ 29 مختلف سپورٹس کمپلیکس بنائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف اضلاع میں چھوٹے کھیل کے میدان قائم کیے گئے۔

پشاور میں تحصیل پلے گراونڈ ولی آباد او میرہ کچوڑی میں ایک گراونڈ بنایا گیا، چارسدہ میں تنگی، شبقدر اور ترنگزئی میں ایک ایک کھیل کا میدان بنائے گئے۔

اسی طرح نوشہرہ، مردان، کرک اور صوابی میں تین تین اور کوہاٹ اور ہنگو میں دو دو کھیل کے میدان بنائے گئے، جبکہ بنوں اور ایبٹ آباد میں پہلے سے موجود تین تین اور ہری پور، چترال اور ملاکنڈ میں ایک ایک کھیل کے میدان بحال کیے گئے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے تین دن تک صوبائی سپورٹس ڈائریکٹر خالد خان کی موقف لینے کی کوشش کی، لیکن ان کی طرف سے پیغامات دیکھنے اور پڑھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔  

بنائے گئے کھیل کے میدانوں میں سہولیات

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے پشاور میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی عبدالقیوم آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ایک ہزار گراونڈز منصوبے کے تحت لنڈی کوتل تحصیل کے شلمان اور جمرود کے علاقے ملاگوری میں ایک کرکٹ گراونڈ بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ دونوں کو گراؤنڈز کہنا درست نہیں کیونکہ یہ محض کھیل کا میدان ہے جس میں زمین کے قطعے کے گرد چار دیواری کھڑی کی گئی ہے، جس کے اندر کوئی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔

’ان کھیل کے میدانوں میں نہ پانی ہے، نہ بجلی اور نہ کھلاڑیوں کے لیے دوسری ضروری سہولیات ہیں۔

’میں تو ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ محض نمبر پورے کرنے لیے کیا گیا، ورنہ کھیل کے میدان ایسے نہیں ہوتے۔‘

محکمہ کھیل کی جانب سے اگر کوئی موقف انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجا گیا، تو اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔

اس حوالے سے جب پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر کامران خان بنگش سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابتدا میں تحصیل سطح پر کھیلوں کے میدان بنانے کا منصوبہ تھا لیکن بعد میں یونین کونسل کی سطح پر ایک ہزار کھیلوں کے میدان بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا: ’صوبے کی تمام 130 تحصیلوں میں کھیل کے میدان بنانے کا منصوبہ تھا، لیکن ایک ایمبیشییس منصوبہ یہ بنایا گیا کہ ایک ہزار کھیل کے میدان بنائے جائیں اور اس منصوبے کے لیے بجٹ میں فنڈ بھی مختص کیے گئے۔‘  

تاہم بعد میں کامران بنگش کے مطابق جب منصوبے پر کام کا آغاز ہوا، تو مختلف مسائل سامنے آنا شروع ہوئے تو اس منصوبے پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔

کامران نے بتایا: ’منصوبہ نظر ثانی کے لیے کابینہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن صوبائی ہماری (پی ٹی آئی کی) حکومت ختم ہو گئی، تو یہ معاملہ اسی طرح رہ گیا۔‘

کامران سے ایک ہزار کھیلوں کے میدان بنانے کے لیے مختص فنڈز کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر منصوبوں کے لیے فنڈز سہ ماہی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں جو خرچ نہ ہونے کی صورت میں واپس کر دیے جاتے ہیں۔

’وہ فنڈز پھر عوام کے دیگر ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جاتے ہیں اور یہ ایک طے شدہ طریقہ کار ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل