ایران میں 83.7 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذرات پائے گئے: اقوام متحدہ

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے رکن ممالک کو فراہم کی جانے والی اس خفیہ سہ ماہی رپورٹ سے ایران اور مغرب کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر تناؤ میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے نے تہران کے یورینیم کے ذخیرے کو 300 کلوگرام (661 پاؤنڈ) اور افزودگی 3.67 فیصد تک محدود کر دی تھی(اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے معائنہ کاروں نے ایران کی زیر زمین فردو نیوکلیئر تنصیب میں یورینیم کے ذرات کو 83.7 فیصد تک افزودہ پائے جانے کو رپورٹ کیا ہے۔

ویانا میں قائم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے رکن ممالک کو فراہم کی جانے والی اس خفیہ سہ ماہی رپورٹ سے ایران اور مغرب کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر تناؤ میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق آئی اے ای اے کی رپورٹ میں صرف ’ذرات‘ کے متعلق بات کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران 60 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں بنا رہا۔

آئی اے ای اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’معائنہ کاروں کو 21 جنوری کو معلوم ہوا تھا کہ ایران کی فردو تنصیب میں آئی آر سکس سینٹری فیوجز کے دو حصے اس سے ’کافی مختلف‘ انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں، جس کا پہلے اعلان کیا گیا تھا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آئی اے ای اے نے اس کے اگلے دن نمونے لیے، جن میں ذرات 83.7 فیصد تک خالص پائے گئے۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ایران نے ایجنسی کو آگاہ کیا ہے کہ منتقلی کے دوران افزودگی کی سطح میں ’غیر ارادی اتار چڑھاؤ‘ ہوسکتا ہے۔‘

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایجنسی اور ایران کے درمیان اس معاملے کی وضاحت کے لیے بات چیت جاری ہے۔‘

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی جانب سے ایران کے ساتھ اس بات پر مذاکرات جاری ہیں کہ اس کے فردو افزودگی پلانٹ میں 83.7 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذرات موجود ہیں جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار گریڈ کے بہت قریب ہیں۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ ’آئی اے ای اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار میسیمو اپارو نے گذشتہ ہفتے اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ کیا اور مبینہ افزودگی کی شرح کا جائزہ لیا۔‘

اس مشن کا کہنا تھا کہ ’ایران کے تخمینے کی بنیاد پر ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان مبینہ افزودگی کا تناسب حل ہو گیا ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’آئی اے ای اے کی رپورٹ ان کے دورے سے پہلے تیار ہونے کے باعث ان کے دورے کے نتائج اس میں شامل نہیں ہیں اور امید ہے کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل مارچ میں بورڈ آف گورنرز کو اپنی زبانی رپورٹ میں اس کا ذکر کریں گے۔‘

ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے نے تہران کے یورینیم کے ذخیرے کو 300 کلوگرام (661 پاؤنڈ) اور افزودگی 3.67 فیصد تک محدود کر دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنہ 2018 میں امریکہ کی جانب سے اس معاہدے سے یک طرفہ دستبرداری کے بعد کشیدگی میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا۔

جس کے بعد سے ایران 60 فیصد خالص یورینیم پیدا کر رہا ہے جس کے لیے عدم پھیلاؤ کے ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تہران کا کوئی سویلین استعمال نہیں ہے۔

آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق 12 فروری تک ایران کے یورینیم کے ذخیرے کا حجم تین ہزار760 کلوگرام (8,289 پاؤنڈ) تھا جو نومبر میں اس کی آخری سہ ماہی رپورٹ کے مقابلے میں 87.1 کلوگرام (192 پاؤنڈ) زیادہ ہے۔

اس میں سے 87.5 کلوگرام (192 پاؤنڈ) 60 فیصد تک افزودہ ہے۔ تقریبا جس کا مطلب ہے کہ اگر ایران چاہے تو اس مواد کے کسی بھی ذخیرے کو ایٹم بم بنانے کے لیے فوری طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کے پاس اب ’کئی‘ بم بنانے کے لیے کافی یورینیم موجود ہے لیکن ممکنہ طور پر ہتھیار بنانے اور ممکنہ طور پر اسے میزائل پر نصب کرنے کی غرض سے اسے چھوٹا کرنے کے لیے مزید مہینوں درکار ہوں گے۔

امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے حال ہی میں گذشتہ ہفتے اپنے اندازے کو برقرار رکھا ہے کہ ’ایران ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔‘

سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیمز برنز نے سی بی ایس کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک ہمارے علم میں ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ ایران کے سپریم لیڈر نے ابھی تک اسلحے کے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسے ہم سمجھتے ہیں کہ انھوں نے 2003 کے آخر میں معطل یا روک دیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا