جب آشا پاریکھ سیٹ پر ہی بے ہوش ہو گئیں

گانے کی عکس بندی شروع ہوئی تو آشا پرسکون تھیں کہ انہیں کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا اور سارا کام کیمرہ مین کا ہے لیکن پھر اچانک ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

آشا پاریکھ ہدایت کار ناصر حسین کی بہت عزت کرتی تھیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ان کا کریئر گمنامی کے اندھیروں میں رہتا (تصویر انسٹاگرام ashaparekh_ji )

آشا پاریکھ کی طبیعت ناساز تھی لیکن وہ پھر بھی سیٹ پر موجود تھیں۔ نقاہت چہرے پر عیاں تھی مگر اس کے باوجود وہ تھوڑی دیر کرسی پر ٹیک لگانے کے بعد تازہ دم ہو کر عکس بندی کے لیے تیار تھیں۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔

60 کی دہائی کا تذکرہ ہے جب آشا ایک ساتھ دو فلموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا امتحان لے رہی تھیں۔

دلچسپ بات تو یہ تھی کہ دونوں فلمیں ایک ہی پروڈکشن ہاؤس یعنی ناصر حسین کی تھیں۔

ایک فلم ’تیسری منزل‘ تو دوسری ’بہاروں کے سپنے‘ تھی۔ دونوں فلموں میں آشا پاریکھ کے الگ الگ ہیروز شمی کپور اور راجیش کھنہ تھے۔

وہ ہدایت کار ناصر حسین کی اب تک کامیاب فلموں ’دل دے کے دیکھو‘ اور ’جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘ میں کام کر کے شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوچکی تھیں۔

بلکہ فلم ’دل دے کے دیکھو‘ کے ذریعے انہیں پہلی بار لیڈ رول ملا تھا اور فلم بھی باکس آفس پر کامیاب ٹھہری، جس کے بعد آشا کو پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا موقع نہیں ملا اور وہ آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئیں۔

وہ، ناصر حسین کی بہت عزت کرتیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ان کا کیریئر گمنامی کے اندھیروں میں رہتا۔

ان کو غنودگی کی حالت میں دیکھ کر سپاٹ بوائے نے فکرمند لہجے میں ان سے پوچھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک ہے؟ جواباً آشا نے آنکھوں کے تاثرات کے ذریعے بتایا کہ وہ بالکل فٹ ہیں۔

اس کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آشا دن بھر ’تیسری منزل‘ کی عکس بندی میں مصروف ہوتیں اور پھر سورج ڈھلنے کے بعد رات ڈھائی تین بجے تک ’بہاروں کے سپنے‘ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کرتیں اور یہ معمولات کئی ہفتوں سے جاری تھے۔

یہی سبب تھا کہ آشا کو نیند پوری کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا لیکن وہ اس قدر پیشہ ور فنکارہ تھیں کہ کہیں ناصر حسین جو ان دونوں فلموں کے پروڈیوسر بھی تھے ان کا نقصان نہ ہوجائے۔ بس سر جھکا کر کام کرے جا رہی تھیں۔

پروڈکشن رکن نے آشا کو بتایا کہ آج ’بہاروں کے سپنے‘ کے گانے کی عکس بندی کی جائے گی۔ ڈریم سین کا سیٹ تھا جس کے لیے ہیرو راجیش کھنہ پوری طرح تیار تھے۔

فلم ’بہاروں کے سپنے‘ بلیک ایند وائٹ تھی جس کے عکس بند کیے جانے والے اس گیت ’کیا جانو سجن ہوتی ہے کیا غم کی شام‘ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ فلم کا اکلوتا کلر گیت تھا، جس کے بول مجروح سلطان پوری نے جبکہ دھن آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی۔

آشا نے تھوڑا اطمینان کا اظہار اس بات پر کیا کہ آج صرف گانے کی ہی عکس بندی ہے اور گیت بھی ایسا جس میں انہیں زیادہ رقص کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ اصل کام کیمرا مین کا تھا، جو ٹرالی پر بیٹھ کر کیمرے کو دائیں سے بائیں یا پھر آگے پیچھے کرتا رہتا۔

 سنیماٹوگرافر کی نشاندہی کے بعد آشا مطلوبہ مقام پر جا کر کھڑی ہو گئیں۔

ریکارڈ پلیئر پر گانا بجنا شروع ہوا جس پر انہوں نے لب ہلانے کے ساتھ ساتھ ادائیں دکھانا شروع کیں۔

چند ہی منٹ ہوئے تھے کہ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے پورا سیٹ گھوم رہا ہے۔ پہلے وہ اسے اپنا وہم سمجھیں لیکن پھر آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔

اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتیں اچانک ہی سیٹ کے فلور پر جا گریں۔ ناصر حسین نے کٹ کٹ کی تیز آواز لگائی۔ آناً فاناً ان تک پہنچا گیا جو بے سدھ پڑی تھیں۔

ناصر حسین نے چیخ کر اسٹنٹ سے فوری طور پر سیٹ سے غیر ضروری افراد کو ہٹانے اور ساتھ ہی ڈاکٹر کو طلب کرنے کا حکم دیا۔

ہر کوئی اس نئی صورت حال پر پریشان تھا۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ اسٹنٹ بھاگتے ہوئے ڈاکٹر کے ساتھ آیا۔

ان کو اس وقت تک آرام دہ گدے پر لٹا دیا گیا تھا، جن کے سرہانے ایک سپاٹ بوائے پنکھا جھل رہا تھا۔

ڈاکٹر نے آشا کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو بخار میں تپ رہی ہیں۔ بلڈ پریشر بالکل ڈاؤن تھا۔

ڈاکٹر کی فوری طبی امداد کی بنا پر چند لمحات کی محنت کے بعد وہ ہوش میں آچکی تھیں۔

ڈاکٹر نے ناصر حسین کو بتایا کہ آشا بہت زیادہ کمزور ہیں اور یقینی طور پر نیند پوری نہ ہونے پر ان کی صحت متاثر ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر نے چند سکینڈز خاموش رہنے کے بعد پلٹ کر آشا سے دریافت کیا کہ آپ کی جو علامت ہیں وہ یہی بتا رہی ہیں کہ آپ کسی بیماری کا بھی شکار ہیں۔ کیا ایسا ہی ہے؟

جواب میں انہوں نے دھیمے لہجے میں بتایا کہ وہ ٹائی فائیڈ سے لڑ رہی ہیں جس کا علاج بھی چل رہا ہے۔

ان کا یہ انکشاف ہر کسی پر بم پھٹنے کے مترادف تھا۔ ناصر حسین کا تو پارہ ہائی ہو گیا۔

ان کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے آشا نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے اس بیماری سے متاثر ہیں اور ناصر حسین کو اس لیے بیان نہیں کر پائیں کہ کہیں ان کی فلمیں متاثر نہ ہوجائیں۔

یہ جان کر ناصر حسین اور خفا ہوگئے۔ انہوں نے اسی وقت ’پیک اپ‘ کی صدا لگائی اور اعلان کیا کہ جب تک آشا مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوں گی۔ کسی فلم کی کوئی عکس بندی نہیں کی جائے گی۔

کئی ایک نے آشا کے اس پیشہ ورانہ رویے کی تعریف کرنے میں دیر نہ لگائی۔

اب آشا کو بیماری کی تعطیلات مل چکی تھیں جو چند ہفتے بعد جب صحت یاب ہو کر سیٹ پر آئیں تو ایک مرتبہ پھر سے فلموں کی عکس بندی کا آغاز ہوا۔

اس سارے واقعے کا یہ اثر ہوا ہے کہ جب بھی ناصر حسین یا ان کے بھائی طاہر حسین نے کسی فلم کا منصوبہ بنایا تو ان کی پوری کوشش ہوتی کہ پہلا انتخاب آشا ہی ہوں۔

23 جون، 1967 کو سینیما گھروں کی زینت بننے والی ’بہاروں کے سپنے‘ نے بہترین کاروبار کیا۔

رنگین گیت میں پرستار کھو تو گئے لیکن کسی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ اسی گانے کی عکس بندی کے دوران آشا پاریکھ بے ہوش بھی ہوئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم