بڑھتی مہنگائی: پاکستان میں پانچ مرلے کے گھر پر اب کتنی لاگت آتی ہے؟

تعمیراتی شعبہ سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے گھر بنانے کا بجٹ بنانا بھی دشوار ہو گیا ہے اور بجری، سیمنٹ، سریا، اینٹیں مہنگی ہونے سے تعمیر کا ٹھیکہ بھی غیر معمولی بڑھتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں موجودہ معاشی صورت حال کے باعث جہاں ہر چیز ہی بڑھتی مہنگائی کی زد میں آئی ہے وہیں تعمیراتی مٹیریل کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

تعمیراتی شعبہ سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے گھر بنانے کا بجٹ بنانا بھی دشوار ہو گیا ہے اور بجری، سیمنٹ، سریا، اینٹیں مہنگی ہونے سے تعمیر کا ٹھیکہ بھی غیر معمولی بڑھتا جا رہا ہے جبکہ بڑے اور چھوٹے شہروں میں تعمیرات کا کام بھی پہلے کی طرح دکھائی نہیں دیتا۔

کنسٹرکشن مٹیریل کی فروخت کرنے والے سٹورز مالکان سیل کم ہونے جبکہ محنت کش طبقہ کام نہ ملنے کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لاہور شہر کی ایک کالونی میں پانچ مرلے کا گھر تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار غلام یٰسین کہتے ہیں کہ ’پانچ مرلہ کا جو گھر 40 لاکھ روپے میں تعمیر ہوتا تھا، میڑیل مہنگا ہونے سے اب وہ ہی گھر 60  سے 70 لاکھ روپے میں تعمیر ہوتا ہے۔‘

’تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، جس سے غیر یقینی بڑھتی ہے اور لوگ نیا گھر شروع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘

غلام یٰسین نے بتایا کہ سریا، بجری،  سیمنٹ، اینٹیں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف پیداواری لاگت زیادہ ہوئی بلکہ لوگوں کا گھر بنانے کا خواب بھی پورا کرنا ممکن نہیں رہا۔

’تعمیراتی کام کم ہونے سے محنت کش بے روزگار ہو رہے ہیں جو کام کر بھی رہے ہیں مگر انہیں اجرت وہی پرانی مل رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ٹھیکہ دینے کی بجائے لوگ اب دیہاڑی پر کام کرانے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے محنت کش طبقے کو مذید مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘

گھروں کی تعمیر کرنے والے مستری غلام مصطفی کہتے ہیں کہ ’میں گذشتہ 20 سالوں سے مستری کا کام کر رہا ہوں۔ 18 سو روپے دہاڑی ملتی ہے، اس کے باوجود گھر چلانا مشکل ہے، کرایہ، یوٹیلٹی بل اور دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مزدور کی دہاڑی ہزار سے 12 سو روپے تک ہے۔ ان کا گزارہ کرنا بھی آسان نہیں۔ دوسری جانب میٹیریل کی قیمتوں میں اضافے سے کام کم ہوگیا ہے، کبھی دہاڑی لگتی ہے کبھی فارغ ہی رہتے ہیں۔‘

’میری حکومت سے اپیل ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘

میٹیریل سٹور کے مالک مختیار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سیمنٹ کی بوری چند دن میں ہزار سے ساڑھے 11 سو، سریا فی کلو ڈیڑھ سے ڈھائی سو، اینٹ فی ہزار قیمت 15 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ بجری کا ایک فٹ والا ڈبہ 70 سے ڈیڑھ سو تک ہو گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’قیمتیں ہر ہفتے مختلف ہوتی ہیں، جیسے پیٹرول، ڈیزل کا ریٹ بڑھتا ہے تو کرایہ بڑھ جاتا ہے، یہ تو سٹرکچر کھڑا کرنے کے آئیٹم ہیں، الیکٹرک کا سامان، ٹائلیں وغیرہ اس کے علاوہ استعمال ہوتی ہیں ان کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔‘

’عام آدمی کے لیے گھر بنانا ایک خواب ہی بن گیا ہے، جو لوگ تعمیر کرا بھی رہے ہیں وہ دو منزلہ کی بجائے ایک منزلہ اور چار کی بجائے دو کمرے بنوا کر گزارہ کر رہے ہیں۔‘

مختیار احمد نے کہا کہ تعمیراتی سامان مہنگا ہونے سے ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر اخراجات بڑھ چکے ہیں مگر آمدن کم ہے۔

’چیزیں مہنگی ہیں تو منافع بھی نہ ہونے کے برابر رکھنا پڑتا ہے جس سے آمدن بھی کم ہوتی ہے، لہذا دو وقت کی روٹی کمانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔‘

گذشتہ سہ ماہی میں تعمیراتی میٹیریل کے نرخوں میں 14 سے 83 فیصد تک اضافہ، فنانس ڈپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن اور موجودہ قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق پر اہم منصوبوں کے ٹھیکیداروں نے مہنگائی کی مناسبت سے نئے ریٹس کی درخواست دے دی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’تعمیراتی میٹیریل مہنگا ہونے کی وجہ سے منصوبوں کی لاگت میں 35 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔‘

’گذشتہ ایک ماہ کے دوران سریے کا ریٹ دو لاکھ سے دو لاکھ 80 ہزار روپے فی ٹن تک پہنچ گیا ہے۔ سیمنٹ کی بوری 12 سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اینٹ فی ہزار 15 ہزار روپے اور بجری کی قیمت بھی دوگنا ہوچکی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر