پی ایس ایل 8: قلندرز میں ایسی کیا خوبی؟

لاہور قلندرز فائنل میں ملتان سلطانز کو ڈرامائی انداز میں صرف ایک رن سے شکست دے کر نہ صرف جیتی بلکہ پی ایس ایل کی تاریخ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی ہے۔

19 مارچ 2023 کی اس تصویر میں لاہور قلندرز کے کپتان شاہین شاہ آفریدی پی ایس ایل 8 کے فائنل میں ملتان سلطانز کو شکست دینے کے بعد ٹیم کے ہمراہ اختتامی تقریب میں ٹرافی اٹھائے کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آٹھواں ایڈیشن لاہور قلندرز کی جیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا، جس نے فائنل میں ملتان سلطانز کو ڈرامائی انداز میں صرف ایک رن سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

لاہور قلندرز پی ایس ایل کی تاریخ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ سال بھی فائنل ان ہی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جس میں لاہور قلندرز فاتح بنی تھی اور اسے بھی دلچسپ اتفاق کہا جاسکتا ہے کہ اس پی ایس ایل کا اختتام انہی دو ٹیموں کے مقابلے پر ہوا جو اس پی ایس ایل کا افتتاحی میچ کھیلی تھیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ افتتاحی اور فائنل دونوں میچوں کا نتیجہ لاہور قلندرز کے حق میں ایک ہی رہا یعنی دونوں مرتبہ ایک رن سے فتح۔

یہ فائنل ایک ایسا میچ ثابت ہوا جس نے دیکھنے والوں کی دھڑکنیں اور سانسیں بے ترتیب کرکے رکھ دی تھیں۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی روایتی خوبصورتی میچ کے آخری اوور میں ابھر کر سامنے آگئی تھی۔ جس نے بھی یہ میچ سٹیڈیم اور ٹی وی پر دیکھا وہ اس فائنل کو کبھی نہیں بھلاسکے گا۔

سلطانز اور قلندرز میں ایسی کیا خوبی؟

ملتان سلطانز کی ٹیم جب سے شون گروپ سے نکل کر ترین فیملی کے ہاتھ میں آئی ہے، اس نے ٹیک آف کیا ہے اور اس کی اڑان کامیابی سے جاری ہے، جس میں  اس کے تھنک ٹینک کوچنگ سٹاف اور کھلاڑیوں کی مشترکہ محنت کا عمل دخل شامل ہے۔

ایک جانب حیدر اظہر جیسا ٹیم منیجمنٹ کی باریکیوں کو سمجھنے والا شخص موجود ہے تو دوسری جانب حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے اینڈی فلاور جیسا انتہائی تجربہ کار کوچ کھلاڑیوں کو پلان بنا کر دے رہا ہے۔

ان کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے عبدالرحمٰن کی رہنمائی بھی کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ عبدالرحمٰن نے ڈومیسٹک کرکٹ میں خیبرپختونخوا کی کرکٹ کو اپنے وسیع تجربے سے جتنا فائدہ پہنچایا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے لیے وہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈکوچ مقرر کیے گئے ہیں۔

ملتان سلطانز کی حالیہ کامیابیوں میں کپتان محمد رضوان کا کلیدی کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کے جوہر بھی کھل کر دکھائے ہیں۔

یہ وہی محمد رضوان ہیں جن کی کراچی کنگز میں جگہ نہیں بن پا رہی تھی اور 2020 میں انہیں صرف دو میچوں میں موقع مل سکا تھا لیکن ملتان سلطانز میں آتے ہی وہ حریف بولنگ کو جلانے والا آتش فشاں بن چکے ہیں اور یہ لگاتار تیسرا پی ایس ایل ہے، جس میں وہ پانچ سو سے زائد رنز بناچکے ہیں۔

ملتان سلطانز کی کارکردگی میں محمد رضوان کے علاوہ رائلے روسو کی شاندار بیٹنگ کا حصہ نمایاں رہا۔ فائنل میں اگر وہ کچھ دیر اور کریز پر ٹھہر جاتے تو انہوں نے میچ کا نقشہ بدلنے کا پورا پورا سامان کرلینا تھا۔

ملتان سلطانز کی بولنگ میں فاسٹ بولرز عباس آفریدی اور احسان اللہ قابل ذکر رہے۔

سپن بولنگ کے شعبے میں اسامہ میر جہاں ضرورت پڑی وکٹیں لے کر ٹیم کے کام آئے۔ فائنل میں ان کی بولنگ نے لاہور قلندرز کی مایوسی کو ایک موقع پر انتہا کو پہنچا دیا تھا۔

ملتان سلطانز کی طرح لاہور  قلندرز کے مالکان نے بھی اپنی ٹیم کو ایک ایسا فرینڈلی ماحول فراہم کیا ہوا ہے، جس میں وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر ثمین رانا کہتے ہیں کہ جب انہوں نے لاہور قلندرز کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور کارپوریٹ سٹائل میں کام کرنے کی کوشش کی تو لوگوں نے ان پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ کھلاڑیوں کے ساتھ فاصلے رکھیں۔ ان کے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ اختیار نہ کریں لیکن چونکہ ان کی اپنی ٹریننگ اس نکتے پر ہوئی ہے کہ آپ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو عزت دیں تاکہ آپ کو بھی عزت ملے ۔اسی لیے انہوں نے قلندرز کی ٹیم میں کوئی فاصلہ نہیں رکھا ہے۔

لاہور قلندرز کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کا سب سے مشکل وقت پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن تک تھا۔ قلندرز کی ٹیم صحیح معنوں میں پی ایس ایل 5 سے بنی ہے۔ شاہین آفریدی کو سہیل اختر کا نائب اسی مقصد کے تحت بنایا گیا تھا کہ وہ آنے والے سیزنوں کے لیے کپتان کے طور پر تیار ہوسکیں اور گذشتہ سال ان کی کپتانی میں قلندرز فاتح بنی۔

لاہور قلندرز کے پاس شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، زمان خان اور راشد خان کی شکل میں ورلڈ کلاس بولنگ اٹیک موجود ہے۔

زمان خان نے شاہین آفریدی اور حارث رؤف کی موجودگی میں متاثرکن کارکردگی دکھائی ہے جس کی وجہ سے وہ پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

فائنل میں انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے جس طرح بولنگ کی، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے حالانکہ حارث رؤف کے انیسویں اوور میں  بننے والے بائیس رنز نے میچ کو تقریباً قلندرز کے ہاتھ سے نکال دیا تھا۔

بیٹنگ میں فخر زمان مجموعی کارکردگی میں قابل ذکر رہے۔ وہ پی ایس ایل کی تاریخ میں مجموعی طور پر چھکوں کی سنچری مکمل کرنے والے پہلے بیٹسمین بھی بن گئے ہیں۔

دیگر بیٹسمینوں میں مرزا بیگ نے پشاور زلمی کے خلاف ایلیمنیٹر میں اہم نصف سنچری بناکر اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا۔ فائنل میں بھی وہ اہم اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے۔

عبداللہ شفیق  75، 45 اور 48 کی  تین اچھی اننگز کے بعد پانچ اننگز میں کچھ نہ کرپائے لیکن فائنل میں ان کے 65 رنز نے لاہور قلندرز کی پوزیشن بہتر بنا دی۔

یہاں شاہین شاہ آفریدی کا ذکر بھی ضروری ہے جو اس لیگ میں جارحانہ بیٹسمین کے طور پر سامنے آئے۔ پہلے انہوں نے زلمی کے خلاف نصف سنچری بنائی اور پھر فائنل میں پانچ چھکے اور دو چوکے لگاکر مشکل میں گھری اپنی ٹیم کا سکور دو سو تک پہنچا دیا۔بولنگ میں اگرچہ وہ ابتدا میں مہنگے ثابت ہوئے لیکن پھر ان کی چار وکٹیں لاہور قلندرز کو اپنے ٹریک پر لے آئیں۔

شاہین شاہ آفریدی ابھی فرنچائز کرکٹ میں کپتانی کے تجربے سے آشنا ہوئے ہیں ان کے سامنے ابھی لمبا کیریئر ہے، لہذا انہیں میدان میں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

یونائیٹڈ اور زلمی سے کیا غلطی ہوئی؟

اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے مایوس کن بات یہ تھی کہ جارحانہ بیٹنگ کے لیے مشہور پال سٹرلنگ صرف دو میچ کھیل پائے جبکہ الیکس ہیلز چھ میچوں میں ایک ہی نصف سنچری بنا سکے اور وہ اننگز بھی ٹیم کے کام نہ آسکی۔

اعظم خان اور کالن منرو نے چوکوں چھکوں کی بارش  سے بیٹنگ کو سنبھالے رکھا لیکن جس طرح اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایلیمنیٹر میں پشاور زلمی کے خلاف جیتی ہوئی پوزیشن سے میچ ہارا وہ مایوس کن تھا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی بولنگ میں فائر پاور کا فقدان رہا۔ محمد وسیم جونیئر خوش قسمت ہیں کہ پورے ٹورنامنٹ میں دس رنز فی اوور کے حساب سے آٹھ وکٹیں لینے کے باوجود وہ افغانستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

پشاور زلمی کی بیٹنگ کو بابر اعظم کے آنے سے بہت تقویت ملی۔ زلمی کی بیٹنگ انہی کے گرد گھومتی رہی جنہوں نے اس لیگ میں مجموعی طور پر 522 رنز سکور کیے، جن میں ایک سنچری اور پانچ نصف سنچریاں شامل تھیں۔

انہوں نے دو تیز نصف سنچریاں بناکر اپنے ناقدین کو بھی جواب دیا البتہ لیگ سپن گگلی بولنگ پر ان کے آؤٹ ہونے کا سلسلہ جاری ہے، جن میں راشد خان سب سے نمایاں ہیں۔

صائم ایوب اور محمد حارث کی صلاحیتیں بھی کسی سے کم نہ تھیں لیکن لاہور قلندرز کے خلاف اہم میچ میں کیڈمور اور صائم ایوب کا جلد آؤٹ ہوجانا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔

بولنگ پشاور زلمی کا کمزور شعبہ رہی۔ اگرچہ عامر جمال اور  سلمان ارشاد نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف میچ وننگ بولنگ کی لیکن مجموعی طور پر زلمی کی بولنگ میں بھی وہ چمک دمک موجود نہیں تھی۔ مجیب الرحمٰن جیسا سپنر سات میچوں میں صرف چار وکٹیں حاصل کرسکا۔

گلیڈی ایٹرز اور کنگز پر مایوسی کے سائے

اگر اس پی ایس ایل میں کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ اسی مایوس کن کارکردگی کا تسلسل ہے جو یہ دونوں ٹیمیں پچھلے ایک دو ٹورنامنٹس سے دکھاتی ہوئی آرہی ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم اس بار آخری نمبر پر رہی۔پچھلے سال وہ پانچویں نمبر پر آئی تھی اور اس سے ایک سیزن پہلے اس نے چھ ٹیموں میں آخری پوزیشن پر جگہ بنائی تھی۔

کراچی کی ٹیم پچھلے سال دس میں سے نو میچ ہارکر آخری نمبر پر آئی تھی، اس بار وہ پانچویں نمبر پر  رہی۔گوکہ اس نے چند میچز بہت کم مارجن سے ہارے لیکن پوری ٹیم میں صرف کپتان عماد وسیم ہی تھے جو اپنی شاندار کارکردگی سے نمایاں طور پر سامنے آئے۔

دیگر بیٹسمینوں کی طرف سے مستقل مزاجی کا فقدان رہا۔ شرجیل خان کے لیے یہ انتہائی مایوس کن پی ایس ایل ثابت ہوئی۔ بین کٹنگ آل راؤنڈر کی حیثیت سے کچھ کر دکھانے سے بالکل قاصر رہے۔ بولنگ میں لیگ سپنر عمران طاہر  جس معیار کے بولر رہے ہیں وہ بات اس ٹورنامنٹ میں دیکھنے میں نہیں ملی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے بہترین دن گزار چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔

مجھے ذاتی طور پر سلمان اقبال اور ندیم عمر سے ہمدردی ہے جو اپنی ٹیموں پر بے پناہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں لیکن انہیں اب  اپنے تھنک ٹینک اور ٹیم منیجمنٹ کے بارے میں کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز والے صرف یہ کہہ کر بری الزمہ نہیں ہوسکتے کہ سری لنکن سپنر ہسارنگا کے نہ آنے سے ان کی کارکردگی پر فرق پڑا۔ اگر ہسارنگا کھیلتے ہوئے ان فٹ ہوجاتے اور کھیلنے کے قابل نہ رہتے تو پھر کیا ہوتا؟

کوئٹہ کے کوچ معین خان نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیم نے متعدد کھلاڑیوں کو دوسری ٹیموں میں جانے دیا۔ وہ اس ضمن میں اعظم خان، صائم ایوب اور رائلے روسوکے نام لیتے ہیں جنہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے حاصل کرکے کھودیا اور دوسری ٹیموں نےانہیں حاصل کرکے اپنی کارکردگی کو بہتر بنادیا۔

کراچی کنگز ابتدا ہی سے بابر اعظم کے معاملے میں الجھی نظر آئی۔

سپاٹ فکسنگ کے مرکزی کردار فاسٹ بولر محمد عامر کے بابر اعظم کے بارے میں میڈیا میں آنے والے تبصرے انتہائی فضول اور غیر ضروری تھے۔ کراچی کنگز کی انتظامیہ نے انہیں اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔

ظاہر ہے میڈیا کو اس بارے میں کراچی کنگز کی پریس کانفرنسوں میں سوالات کرنے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ کپتان عماد وسیم نے ان تمام سوالات کو بہت ہی سمجھداری سے ہینڈل کیا لیکن کراچی کنگز کو ایک مضبوط میڈیا منیجر کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، جو صورت حال کو صرف اور صرف ٹیم کی کارکردگی کی طرف فوکس رکھتا۔

بابر اعظم کے کراچی کنگز سے جانے کے معاملے پر جس طرح پریس کانفرنسوں میں سوالات ہوتے رہے لگ رہا تھا کہ یہ محض میڈیا کا کام نہیں ہے بلکہ ڈوری کہیں اور سے ہلائی جارہی تھی۔

پی ایس ایل کی پچز

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ہر کوئی چوکے چھکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس پی ایس ایل میں راولپنڈی کی پچ نے بیٹسمینوں کے موج مزے کرا دیے۔اس پی ایس ایل میں 17 مرتبہ ٹیموں نے200  کا سکور عبور کیا، جن میں سے 12 راولپنڈی میں بنے۔

پی ایس ایل کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ کوالٹی بولنگ کی لیگ ہے۔ اس بار بھی بولنگ  میں عباس آفریدی ، احسان اللہ، شاہین آفریدی، حارث رؤف کے ساتھ ساتھ سپنرز میں راشد خان اور اسامہ میر نمایاں رہے لیکن دوسری جانب بیٹنگ میں بھی کئی غیرمعمولی اننگز دیکھنے میں آئیں جن میں مارٹن گپٹل، جیسن روئے، فخر زمان، رائلے روسو اور عثمان خان کی شاندار بیٹنگ قابل ذکر تھیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کےجیسن روئے نے پی ایس ایل کی تاریخ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی اور زلمی کے خلاف 145 رنز ناٹ آؤٹ بنا ڈالے۔

ملتان سلطانز کے عثمان خان نے بھی ریکارڈ بک میں اپنا نام  درج کروایا اور پی ایس ایل کی تاریخ کی تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ کوئٹہ کے خلاف انہوں نے صرف 36گیندوں پر سنچری مکمل کی۔ اس سے صرف ایک روز پہلے انہی کی ٹیم کے رائلے روسو نے زلمی کے خلاف 41 گیندوں پر سنچری بناکر اپنی ہی 43 گیندوں کی سنچری کا ریکارڈ توڑا تھا لیکن عثمان خان کے ارادے کچھ اور ہی نکلے۔

نوجوان ٹیلنٹ

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ پی ایس ایل نوجوان  ٹیلنٹ کو سامنے  لانے کا موقع  فراہم نہ کرے۔ صائم ایوب نے پشاور زلمی کی طرف سے شاندار پرفارمنس دی اور پانچ نصف سنچریاں بنائیں۔ انہیں اس محنت کا صلہ پہلی بار پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت کی صورت میں ملا۔

نئی ٹیموں کا اضافہ

پاکستان سپر لیگ کا یہ آٹھواں ایڈیشن اس اعتبار سے اہم تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں چند ماہ پہلے ہی تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ رمیز راجہ گئے تھے اور نجم سیٹھی آئے تھے لیکن چونکہ پی ایس ایل کا سیٹ اپ اب مستحکم ہوچکا ہے اور خود نجم سیٹھی کو بھی یہ ایونٹ کرانے کا تجربہ  ہے لہذا یہ لیگ کامیابی سے ممکن ہوگئی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لاہور میں زمان پارک کی غیرمعمولی صورت حال کی وجہ سے کچھ حلقے خدشات ظاہر کررہے تھے لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے زمان پارک پر پولیس آپریشن روکے جانے کے سبب قذافی اسٹیڈیم کی رونق برقرار رہی۔

 اس سے قبل پنجاب کی نگراں حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے درمیان سکیورٹی کے اخراجات پر پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے بھی پی ایس ایل کے لاہور اور پنڈی کے میچوں کے انعقاد کے بارے میں بے یقینی قائم ہوگئی تھی لیکن فریقین اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

پاکستان سپر لیگ کی ٹیموں کی تعداد چھ سے آٹھ کیے جانے کا معاملہ کافی عرصے سے زیربحث ہے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ چاہتا ہے کہ مستقبل میں ٹیموں کی تعداد بڑھائی جائے لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ موجودہ چھ فرنچائزز کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ کس طرح اور کب حل ہوتا ہے اور شائقین کو مزید دو ٹیمیں میدان میں کھیلتی نظر آئیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ