ٹک ٹاک امریکہ میں چلے گا یا نہیں؟ صارفین کشمکش میں مبتلا

امریکی قانون سازوں کو خدشہ ہے کہ چینی حکومت ٹک ٹاک کو جاسوسی، ڈیٹا کے حصول اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکی قانون سازوں کے اعتراضات کی زد میں آنے کے بعد صارفین ابھی تک اس کشمکش کا شکار ہیں کہ آیا یہ ایپ اب ان کے فونز میں رہے گا یا نہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹک ٹاک چیف ایگزیکٹیو افسر شاؤ زے چیو کو جمعرات کو امریکی قانون سازوں کے جارحانہ انداز میں پوچھے گئے سوالوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑا، جن میں چین کے ساتھ مبینہ روابط  بھی شامل ہیں۔

امریکی قانون ساز اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں کہ آیا ایپ اتنی محفوظ ہے کہ کم عمر کے امریکی  شہری اسے استعمال کر سکیں۔

ان ارکان کو خدشہ ہے ہے کہ چینی حکومت ٹک ٹاک کو جاسوسی، ڈیٹا کے حصول اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

سنگا پور سے تعلق رکھنے والے ٹک ٹاک کے 40 سالہ سی ای او شاؤ زے چیو کو رپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے ارکان کے خلاف معمول سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ سابق بینکار چیو پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی سخت پوچھ گچھ میں ٹک ٹاک کو لاحق خطرے کو ٹالنے میں ناکام رہے۔

وائٹ ہاؤس نے الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ ایپ کو چینی ملکیت سے الگ کر دیا جائے یا امریکہ میں اس کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے گی۔

امریکی ایوان نمائندگان کی انرجی اینڈ کامرس کمیٹی کے ارکان نے چیو کو کوئی مہلت نہیں دی۔ وہ اکثر انہیں جوابات میں مزید وضاحت کرنے یا ٹک ٹاک کی عالمی سطح پر نوجوانوں میں بڑی مقبولیت پر بات کرنے کا موقع دینے سے انکار کرتے رہے۔

چیو نے بات کا آغاز کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ چینی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی ’بائٹ ڈانس چینی حکومت کی ملکیت نہیں اور نہ ہی وہ اس کے انتظامی امور چلاتی ہے۔ یہ ایک نجی کمپنی ہے۔‘

چیو کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ جو ضروری ہے وہ شفاف قواعد ہیں جو وسیع دائرے میں تمام ٹیکنالوجی کمپنیوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان خدشات کو دور کرنے کے لیے ملکیت مرکزی نکتہ نہیں ہے۔‘

امریکی حکومت کی طرف سے ایک میڈیا کمپنی پر پابندی ایسا عمل ہو گا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پابندی کی وجہ سے ملک کے 15 کروڑ ماہانہ صارفین کو ایک ایسی ایپ سے الگ کر دیا جائے گا جو ثقافتی پاور ہاؤس بن چکی ہے، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔

کمیٹی کی چیئرپرسن کیتھی میک مورس روجرز کے بقول: ’ٹک ٹاک نے بار بار زیادہ کنٹرول، زیادہ نگرانی اور زیادہ چالاکی کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ آپ کے پلیٹ فارم پر پابندی لگنی چاہیے۔‘

گرما گرم مباحثے میں چیو کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا کہ امریکی شہریوں کا کچھ نجی نوعیت ڈیٹا اب بھی چینی قانون کے تابع ہے تاہم ان کا اصرار تھا کہ اس صورت حال کو جلد ہی تبدیل کر دیا جائے گا۔

امریکی نمائندوں نے چیو کو ایسی خوفناک مثالیں بھی بتائیں جن کے مطابق ٹک ٹاک کے نوجوان صارفین خود کشی یا خطرناک سٹنٹس کو فروغ دے رہے ہیں جو ہلاکت خیز ثابت ہوئے اور دنیا بھر میں حکام کے اشتعال کا سبب بنے۔

کانگریس کے رکن گس بلیراکیس نے مہمانوں کی گیلری میں موجود ایک ایسے خاندان کی طرف اشارہ کیا جس کا بیٹا ٹرین کے اس حادثے میں مارا گیا تھا جس کے بارے میں ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ واقعے کا تعلق اس کے ٹک ٹاک کے استعمال سے تھا۔ رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ ’آپ کی ٹیکنالوجی عملی طور پر موت کا سبب بن رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین کی تنبیہہ

امریکی پارلیمانی کمیٹی کی سماعت سے قبل چینی وزارت تجارت نے کہا کہ ٹک ٹاک کی جبری فروخت کی سختی کے ساتھ مخالفت کی جائے گی۔ وزارت نے زور دے کر کہا کہ ٹک ٹاک کو اس کی مالک کمپنی سے الگ کرنے کے کسی بھی اقدام کے لیے چینی حکام کی اجازت کی ضرورت ہو گی۔

چینی وزارت تجارت کے ترجمان شو جیوتنگ کے مطابق: ’ٹک ٹاک کو زبردستی فروخت کرنے سے چین سمیت ملکوں کے سرمایہ کاروں کے امریکہ میں سرمایہ لگانے کے حوالے سے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔‘

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی قانون سازوں کے ٹک ٹاک کے سی ای او سے تقریباً چھ گھنٹے تک سوال و جواب کے باوجود اس بات کا جواب نہیں مل سکا کہ آیا ایپ کو امریکی صارفین کی ڈیوائسز سے ہٹا دیا جائے گا یا نہیں۔

امریکی قانون سازوں نے کئی سوالات پوچھے جن میں یہ بھی شامل تھا کہ ٹک ٹاک مواد کو کسی طرح معتدل بناتی ہے۔ کمپنی امریکی شہریوں کے بارے میں معلومات کو چینی حکومت کی دسترس سے کس طرح محفوظ بنائے گی اور اسی صحافیوں کی جاسوسی کرنے سے کیسے روکا جائے گا۔

چیو کا کہنا تھا کہ یہ اس ملک کے قوانین پر منحصر ہے جہاں ایپ کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کے پاس تقریباً 40,000 ماڈریٹرز ہیں جو نقصان دہ مواد کو ٹریک کرتے ہیں اور ایک الگورتھم جو مواد کے بارے میں بتاتا ہے۔

چند سال میں امریکہ میں ٹاک ٹاک کے صارفین کی تعداد 15 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور اس کا بڑھتا ہوئے استعمال کی وجہ سے اس پر امریکہ بھر میں پابندی لگنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیوں کہ امریکی حکام کو خوف ہے کہ صارفین کا ڈیٹا چین کی کمیونسٹ حکومت سے محفوظ نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی